افغان طالبان امیر ملا اختر منصورکاقطر کانفرنسمیں شرکت کا عندی
کابل: افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے بات چیت کے لیے انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی جانب سے قطر میں منعقد کی جانے والی کانفرنس میں افغان طالبان نے اپنا نمائندہ بھیجنے کا عندیہ دے دیا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق طالبان کے سیاسی دفتر کے نمائندے دوحا میں ہفتے کے دن سائنس اور عالمی امور پر ہونے والی پاگواش کانفرنس میں شرکت کریں گے، جو تنازعات کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ایک نوبیل امن انعام یافتہ گروپ ہے۔
طالبان نے اپنے جاری بیان میں کہا کہ کانفرنس کا ‘مقصد افغان تنازع کے حل کی تلاش کرنا ہے’ جسے اب 15 سال ہوچکے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ کانفرنس حالیہ افغان امن مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں ہے، جو گذشتہ سال جولائی میں طالبان کے بانی رہنما ملا عمر کی موت کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔
امن مذاکرات: ‘پاک-افغان کوششوں کی تعریف’
یاد رہے کہ افغان امن مذاکراتی عمل کی بحالی کے لیے چار فریقی گروپ کا تیسرا اجلاس 6 فروری کو اسلام آباد میں منعقد ہونے جارہا ہے، جس میں افغانستان، پاکستان، چین اور امریکہ شامل ہیں۔
واضح رہے کہ اس اجلاس میں طالبان کا کوئی نمائندہ موجود نہیں ہے تاہم اس کا مقصد افغان حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان ممکنہ طور پر مذاکراتی عمل کو بحال کرنے کے لیے کوششیں کرنا ہے۔
طالبان کا کہنا تھا کہ وہ پاگواش کی جانب سے آغاز کیے جانے والے اس ‘صحت مندانہ موقع سے فائدہ’ اٹھانے کا سوچ رہے ہیں، ‘جس میں ہماری عوام کے قانونی مطالبے اور صرف ہماری پالیسی کو دنیا کے سامنے براہ راست لایا جائے گا’۔
انھوں نے کہا کہ کانفرنس کا مقصد ‘خالصتا علمی بحث’ ہے۔
گذشتہ سال ہونے والے پاگواش کے ایسے ہی ایک پروگرام میں افغان حکام نے شرکت کی تھی تاہم وہ اس میں اپنی ذاتی حیثیت میں شریک ہوئے تھے۔
افغانستان میں چار ملکی مذاکرات کا دوسرا دور
سیاسی تجزیہ کار وحید مڑدہ کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں امن مذاکراتی عمل پر بات چیت نہیں کی جائے گی تاہم اس کا مقصد ‘افغانستان کی موجودہ صورت حال’ پر توجہ مرکوز کرنا ہے، وہ افغانستان میں 2001-1996 کے دوران طالبان انتظامیہ کا حصہ رہے تھے۔
طالبان دوحا آفس کے اراکین کے حوالے سے یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ موجودہ طالبان کے امیر ملا اختر منصور سے براہ راست رابطے میں ہیں۔ ملا اختر منصور، ملا عمر کے نائب تھے اور ان کی موت کے بعد طالبان کے امیر مقرر کیے گئے۔
ایک اور تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ مذکورہ پروگرام میں افغان پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے متعدد اراکین بھی شرکت کررہے ہیں، تاہم ان کی شرکت بھی ذاتی حیثیت میں ہوگی۔
افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے نائب ترجمان جاوید فیصل کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کا کوئی نمائندہ بھی مذکورہ کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔