دنیا

دنیا کی سب سے طویل اور گہری ریلوے سرنگ تیار

یورپی ملک سوئٹزرلینڈ میں دنیا کی سب سے لمبی اور سب سے گہری ریلوے سرنگ کا افتتاح ہو رہا ہے۔

گوٹہارڈ ریل لنک کی تعمیر میں 20 سال لگے اور اس پر 12 ارب ڈالر سے زائد کا خرچ آیا ہے۔

سوئس حکام کا کہنا ہے کہ ایلپس کے پہاڑی سلسلے سے گزرنے والی اس سرنگ سے یورپ میں مال برداری کے میدان میں انقلاب آ جائے گا۔

یورپ میں ایلپس کا پہاڑی سلسلہ ہمیشہ سے تجارت کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا رہا ہے۔ رومی زمانے سے لے آج تک اس کے آر پار جانے والے راستے بنائے جاتے رہے ہیں اور ان پر لڑائیاں ہوتی چلی آئی ہیں۔

قدیم زمانے میں اس سلسلۂ کوہ کے دروں میں خچروں کے کاروان گزرا کرتے تھے جن پر نمک سے لے شراب، اور دھاتوں سے لے کر چمڑے کی مصنوعات لدی ہوتی تھیں۔ حادثات عام تھے اور سردیوں میں راستے بند ہو جایا کرتے

تھے۔

1882 میں جب یہاں پہلی ریلوے لائن بچھائی گئی تو اس وقت کے سوئس صدر سمیون باویئر نے بڑی گرم جوشی سے کہا تھا: ’یہ سائنس اور آرٹ کی فتح ہے، یہ محنت اور جانفشانی کی جیت ہے۔ قوموں کو تقسیم کرنے والی رکاوٹ گرا دی گئی ہے اور ایلپس میں نقب لگا دی گئی ہے۔ اب ملک قریب آ گئے ہیں اور دنیا کی منڈی سب کے لیے کھل گئی ہے۔‘

آج بھی اطالوی زیتون کا تیل ہالینڈ بھیجنا ہو یا جرمن کاریں یونان، انھیں ایلپس سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ یہی حال چین اور انڈیا سے آنے والا ہزاروں ٹن مال کا بھی ہوتا ہے۔

لیکن ایلپس سے گزرنے والا موجودہ ٹرانسپورٹ کا نظام طلب پوری کرنے سے قاصر ہے۔ پرانی ریلیں سست رفتار ہیں اور سڑک کے راستے پر واقع گوٹہارڈ سرنگ سے ہر سال دس لاکھ ٹرک گزرتے ہیں، جن کی وجہ سے ایلپس میں بسنے والی آبادیوں کو شور اور ہوا کی آلودگی کی شکایت ہے۔

ٹرک ڈرائیوروں کو سنگل لین سرنگ ناپسند ہے۔ 2011 میں سرنگ کے بیچوں بیچ دو لاریاں ٹکرا گئیں جن سے آگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور 11 لوگ مارے گئے

1992 میں سوئس لوگوں نے ووٹنگ کے ذریعے ایلپس کے آر پار ایک ہائی سپیڈ ریل کے منصوبے کی تعمیر کی منظوری دی تھی۔لیکن اس منصوبے کی راہ میں کئی چیلنج حائل تھے۔

ماہرینِ ارضیات نے کہا کہ گوٹہارڈ کی چٹانیں ناقابلِ اعتبار ہیں اس لیے یہاں سے سیدھی سرنگ گزارنا ممکن نہیں ہو گا۔ مالی مسائل اس کے علاوہ تھے۔

جب کام شروع ہوا تو پتہ چلا کہ بعض چٹانیں ’مکھن کی طرح نرم‘ ہیں، جس کی وجہ سے دن بھر میں مشکل سے ایک میٹر کھدائی ہوتی تھی۔

کھدائی کے لیے 30 فٹ قطر والی دیو ہیکل مشین استعمال کی گئی جو سازگار دنوں میں 40 میٹر تک کھدائی کر سکتی تھی۔

گوٹہارڈ دنیا کی سب سے گہری سرنگ ہے۔ اس کے اوپر ڈھائی کلومیٹر اونچے پہاڑ کا بوجھ ہے، اس لیے کششِ ثقل بار بار حائل ہو کر کھودی ہوئی سرنگ کو بند کرتی رہی۔ اس سے نمٹنے کے لیے سرنگ کی چھتوں میں مضبوط سٹیل کے شہتیر ڈالے گئے۔

اس سرنگ پر دو ہزار سے زائد لوگوں نے 17 سال تک 365 دن سالانہ، 24 گھنٹے یومیہ کام کیا ہے۔ اس دوران حادثات میں نو مزدور مارے گئے۔

بالآخر سرنگ تیار ہو گئی ہے اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند، اٹلی کے وزیرِ اعظم میتیو رینزی سمیت یورپ کے رہنما اسے دیکھنے آ رہے ہیں۔

اس دہری سرنگ کے ذریعے مال کی تیزرفتار اور محفوظ ترسیل ممکن ہو سکے گی۔ تصادم کے خطرے سے بےنیاز ٹرینیں یہاں سے ڈھائی سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گزرا کریں گی۔

مزید یہ کہ پٹری کے راستے میں کوئی چڑھائی اترائی نہیں ہے اور زیورخ سے لے کر لوگانو تک راستہ بالکل ہموار اور سیدھا ہے۔

سوئس اس منصوبے پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں۔ وزیرِ ٹرانسپورٹ ڈورس لیوٹہارڈ اسے نہ صرف اپنے ملک بلکہ تمام یورپ کے لیے خوش آئند قرار دیتی ہیں۔

’ہمارا چھوٹا سا خشکی میں گھرا ہوا ملک ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ تعاون ہی بنیادی شرط ہے۔ یہ منصوبہ اسی تعاون کی مثال ہے۔‘

وہ کہتی ہیں: ’میرا خیال ہے کہ اس بات کی علامت ہے کہ یورپ اور سوئس انجینیئر کیا کر سکتے ہیں، اور انھوں نے زبردست کام کر دکھایا ہے۔‘

 

اس سرنگ پر دو ہزار سے زائد لوگوں نے 17 سال تک 365 دن سالانہ، 24 گھنٹے یومیہ کام کیا ہے۔ اس دوران حادثات میں نو مزدور مارے گئے۔

بالآخر سرنگ تیار ہو گئی ہے اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند، اٹلی کے وزیرِ اعظم میتیو رینزی سمیت یورپ کے رہنما اسے دیکھنے آ رہے ہیں۔

اس دہری سرنگ کے ذریعے مال کی تیزرفتار اور محفوظ ترسیل ممکن ہو سکے گی۔ تصادم کے خطرے سے بےنیاز ٹرینیں یہاں سے ڈھائی سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گزرا کریں گی۔

مزید یہ کہ پٹری کے راستے میں کوئی چڑھائی اترائی نہیں ہے اور زیورخ سے لے کر لوگانو تک راستہ بالکل ہموار اور سیدھا ہے

سوئس اس منصوبے پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں۔ وزیرِ ٹرانسپورٹ ڈورس لیوٹہارڈ اسے نہ صرف اپنے ملک بلکہ تمام یورپ کے لیے خوش آئند قرار دیتی ہیں۔

’ہمارا چھوٹا سا خشکی میں گھرا ہوا ملک ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ تعاون ہی بنیادی شرط ہے۔ یہ منصوبہ اسی تعاون کی مثال ہے۔‘

وہ کہتی ہیں: ’میرا خیال ہے کہ اس بات کی علامت ہے کہ یورپ اور سوئس انجینیئر کیا کر سکتے ہیں، اور انھوں نے زبردست کام کر دکھایا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close