امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے تمام عالمی قوانین کو پاوں تلے روندتے ہوئے شام پر حملہ کردیا
دمشق: امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے شام پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں دارالحکومت دمشق زوردار دھماکوں سے لرز اٹھا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا، برطانیہ اور فرانس نے شام پر میزائل حملے کیے ہیں۔ بی ون بمبار سمیت متعدد لڑاکا طیاروں اور بحری جنگی جہازوں نے اس مشن میں حصہ لیا اور شامی حکومت کی کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات پر میزائل فائر کیے ہیں۔ اہم سوال یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اقوام متحدہ کی ٹیم جس نے کیمیکل اسلحہ کے استعمال کی تحقیق کرنا تھی اور شام نے اسے ویلکم کیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ قانونی ادارہ اپنی تحقیق کر کے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کو رپورٹ پیش کرتا اس سے پہلے امریکہ فرانس اور برطانیہ نے شام پر حملہ کر دیا۔ آخر امریکہ کو اس کی اتنی جلدی کیا تھی؟ اس حملے سے دنیا کو کیا پیغام دینا تھا؟۔
رائٹرز کے مطابق اتحادی افواج نے شامی فوج کے سائنسی تحقیقی مراکز، متعدد فوجی اڈوں اور چھاؤنیوں پر ٹام ہاک کروز سمیت مختلف طرح کے میزائلز داغے ہیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ دمشق میں 6 زوردار دھماکے سنے گئے اور کئی مقامات سے دھواں اٹھتے دیکھا گیا ہے۔
شامی حکام نے بتایا کہ امریکی حملے میں تقریبا 30 میزائل داغے گئے ہیں تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا کیونکہ روس کی اطلاعات پر ان فوجی تنصیبات کو کئی روز پہلے ہی خالی کرالیا گیا تھا، جب کہ مالی نقصان کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔
امریکا کے چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ نے بتایا کہ شام میں تین اہداف کو نشانہ بنایا گیا جن میں دمشق میں واقع کیمیائی و حیاتیاتی ہتھیار بنانے والا سائنسی تحقیقی مرکز، حمص شہر کے جنوب میں واقع کیمیائی ہتھیاروں کا گودام اور حمص کے قریب ہی واقع ایک اور کیمیائی آلات کا گودام و اہم کمانڈ مرکز شامل ہیں، حملوں سے متعلق روس کو کوئی پیشگی اطلاع نہیں کی گئی اور امریکا نے ایسے اہداف کو نشانہ بنایا جہاں روسی افواج موجود نہیں تھیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قوم سے خطاب میں حملے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس کا مشترکہ آپریشن کیا جارہا ہے، اس کارروائی کا مقصد کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری، پھیلاؤ اور استعمال کو سختی سے روکنا ہے، ہم یہ کارروائی اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک شامی حکومت ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال نہیں روکتی۔ ٹرمپ نے شام کے صدر بشار الاسد کے کیمیائی حملوں کے بارے میں کہا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے بلکہ شیطان کے جرائم ہیں، میں روس اور ایران سے پوچھتا ہوں کہ کون سا ملک معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل عام میں ملوث ہونا چاہے گا۔
امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے بتایا ہے کہ شام کی خانہ جنگی کے خاتمے کیلیے مہذب قوموں کے متحد ہونے کا وقت آگیا ہے، شام پر صرف ایک بار حملہ کیا گیا ہے اور مزید حملوں کا منصوبہ نہیں، اس اقدام کا مقصد شامی صدر بشارالاسد کو سخت پیغام دینا ہے کہ آئندہ کیمیائی حملوں سے باز رہے، پہلا حملہ دمشق میں ایسے سائنسی فوجی مرکز پر کیا گیا جہاں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں پر تحقیق، تیاری اور تجربات کیے جاتے تھے، دوسرے حملے میں حمص کے مغرب میں کیمیائی اسلحے کی ذخیرہ گاہ کو نشانہ بنایا گیا جہاں سارن گیس تیار کی جاتی تھی۔
شام کے صدر بشار الاسد نے حملے کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ شام کے سرکاری ٹی وی پر جاری کردہ بیان کے مطابق شامی فضائیہ نے دشمن کے 13 میزائلز کو تباہ کردیا ہے۔ روس نے ردعمل میں کہا ہے کہ امریکا عالمی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے، شام پر حملہ کھلی جارحیت ہے، ان اقدامات کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ روسی حکام نے ٹرمپ کو ہٹلر سے تشبیہ بھی دی ہے۔
برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے کہا ہے کہ طاقت کے استعمال کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تھا تاہم ان حملوں کا مقصد شامی حکومت کا تختہ الٹنا نہیں۔ برطانوی وزارت دفاع کے مطابق 4 ٹورناڈو جیٹ طیاروں نے حمص کے قریب شام کی فوجی تنصیب پر میزائل داغے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ انہوں نے شام کیخلاف امریکا و برطانیہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے، اس کارروائی کا مقصد شامی حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کی پیداوار کو نشانہ بنانا ہے، شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال برداشت نہیں کیا جائے گا، شامی حکومت نے گزشتہ ہفتے کیمیائی ہتھیاروں سے درجنوں مرد، خواتین اور بچوں کا قتل عام کرکے سرخ لکیر عبور کی تھی۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے دفتر سے ٹوئٹر پر ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں شام پر حملے کے لیے فرانسیسی جنگی طیاروں کو اڑان بھرتے دکھایا گیا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولن برگ نے شام پر حملے کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بشارالاسد حکومت کی کیمیائی تنصیبات اور مراکز کے خلاف کارروائی کی حمایت کرتا ہوں، اس کے نتیجے میں شامی حکومت کی اپنے عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچے گا۔
واضح رہے کہ امریکا نے شام پر پہلی بار حملہ نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے بھی کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں 7 اپریل 2017 کو شام پر حملہ کیا تھا اور امریکی بحری جہازوں سے شام کے فوجی اڈے پر 59 ٹاک ہاک کروز میزائل داغے گئے تھے۔ اس سے تین روز قبل 4 اپریل کو بشارالاسد حکومت نے شام کے علاقے خان شیخون پر کیمیائی حملہ کیا تھا جس میں درجنوں افراد جاں بحق اور سیکڑوں متاثر ہوئے تھے۔