اوباما کے مکان کے باہرگاڑيوں کی بھی گنتی کرسکتے ہیں
انڈيا کے خلائی تحقیق کے ادارے (اسرو) نے بدھ کو پی ایس ایل وی سی 34‘ کے ذریعہ ایک ساتھ 20 مصنوعی سیاروں کو خلا میں بھیجا تھا۔
ماہرین کے مطابق جس طرح کامیابی کے ساتھ 20 سیٹلائٹز کو اس کے مدار میں پہنچایا گيا وہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ یہ کافی پیچیدہ کام تھا۔
اسرو کے چیئرمین نے بتایا تھا کہ راکٹ کے خلا میں پہنچنے کے بعد سیٹلائٹ کو جس طرح سے اس کے مدار میں اتارا جاتا ہے وہ ایک پیچیدہ عمل میں مہارت حاصل کرنے کے برابر ہے۔
ان سیٹلائٹز کی مدد سے آسمان سے زمین کی بہترین تصاویر لی جا سکتی ہیں۔
اگر بھارت کے وزیر اعظم چاہیں تو اپنے دفتر میں بیٹھے بیٹھے براک اوباما کے گھر کے باہر کتنی گاڑیاں کھڑی ہیں وہ گن کر بتا سکتے ہیں۔
کسی فوجی یا غیر فوجی ہوائی اڈے پر کتنے ہوائی جہاز کھڑے ہیں اس کی معلومات بھی اس سیٹلائٹ کی مدد سے کی جا سکتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق مستقبل میں اس سے بھارت کی سرحدی سلامتی میں بھی مدد حاصل کی جا سکےگی۔
شہری ترقی اور سمارٹ سٹیز کی ترقی کے منصوبوں میں بھی یہ سیٹلائٹ مدد گار ثابت ہوگي اور ماحولیات کو ہونے والے نقصان پر نظر رکھنے میں بھی یہ مددگار ثابت ہوگی۔
اسے مکمل طور پر بھارت میں تیار کیا گیا ہے اور یہ ایک عمدہ سیٹلائٹ ہے۔
بدھ کو جس پی ایس ایل وی سی 34 سے ان سیٹلائٹ کو خلا میں پہنچایا گیا وہ صرف دو ٹن تک کے سیٹلائٹ لے جانے کے قابل تھا۔
اس برس بھارت ایک بڑا راکٹ ’جیو سیٹلائٹ لانچ وہیکل مارک 3‘ ٹیسٹ کرے گا جس میں چار ٹن تک کے سیٹلائٹ کو خلا میں لے جانے کی صلاحیت ہوگي۔
انڈیا ایک ایسا خلائی جہاز تیار کرنے میں بھی مصروف ہے جو خلا سے واپس شري ہری كوٹا آ سکے اور اس کا دوبارہ استعمال کیا جا سکے۔
اس میں اگرچہ ابھی دس سال لگ جائیں گے۔ اسرو کا خیال ہے کہ اس کے تیار ہونے کے بعد سے آنے والا خرچ دس گنا تک کم ہو جائے گا۔
اب تو گورننس میں بھی سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے۔ اسرو کی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ کہاں پر کتنے کلو میٹر سڑک تیار ہوئی ہے یا کسی نے سڑک بنانے کے نام پر دھوکا دہی تو نہیں کی ہے۔
آنے والے وقت میں بھارت کا GPS سسٹم نقل و حمل کے شعبے میں نئی جان پھونک دے گا۔