برطانیہ سے مذاکرات میں ’نامناسب رویے کی ضرورت نہیں‘
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ یورپی یونین کو اپنے بلاک میں سے برطانیہ کے خروج کے بعد اس کے ساتھ مذاکرات میں کسی بھی طور پر نامناسب رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
انھوں نے اس بات پر ضرور دیا کہ دیگر ممالک کو یورپی یونین چھوڑنے سے باز رکھنا بات چیت میں ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔
جرمن چانسلر کا مزید کہنا تھا کہ وہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے اعلان کے بعد اس بات کے حق میں نہیں کہ اس پر جلد خروج کے لیے دباو ڈالا جائے۔
مسز میرکل نے یہ بیان جرمنی سمیت یورپی یونین کے رکن ممالک میں سے بیشتر کے وزرائے خارجہ کے ان بیانات کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ اس گروپ سے نکلنے کے لیے عملی اقدامات کو تیز کریں
خیال رہے کہ اس سے قبل جرمنی کے وزیر خارجہ فرینک والٹر سٹینمر نے برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ جتنا جلدی ممکن ہو یورپی یونین سے نکل جانے کے عمل کا باقاعدہ آغاز کرے
ان خیالات کا اظہار انھوں نے سنیچر کی صبح جرمنی کے دارالحکومت برلن میں یورپی یونین کے بانی رکن ممالک (جرمنی، فرانس، اٹلی، ہالینڈ، بلجیم اور لکسمبرگ) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد کیا تھا۔
فرینک والٹر سٹینمر کا کہنا تھا کہ (اگرچہ) برطانوی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک کے مستقبل کے بارے سوچیں، اسی طرح یورپی یونین کے رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اتحاد کے مستقبل کے بارے میں سوچیں۔*
ان کا کہنا تھا کہ بانی ارکان کے لیے ضروری ہے کہ یورپی یونین کی شکل میں ’آزادی اور استحکام‘ کے جس منصوبے کی بنیاد انھوں نے رکھی تھی اسے بچایا جائے۔
فرینک والٹر سٹینمر کے بقول ’ہمیں جس صورتحال کا سامنا ہے اس میں نہ تو اوسان خطا ہونے والی کوئی بات ہے اور نہ ہی اس سے ہمیں فالج ہو جانا چاہیے۔‘
جرمن وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ یورپی اتحاد کے رہنماؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کی نقل و حرکت، سکیورٹی اور بے روزگاری کے چیلنجوں پر توجہ دیں۔ ’ ہمیں اس سلسلے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے اور یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارے پاس تمام سوالوں کے جواب موجود ہیں، لیکن برطانیہ کے اخراج کے فیصلے کے بعد ہمارے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ہم پریشانی میں نہ ڈوب جائیں اور کچھ بھی نہ کریں۔
ادھر یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود ہنکر نے کہا ہے کہ اب برطانیہ کے لیے یہ فیصلہ کرنا ضروری ہوگیا کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ کس قسم کے تعلقات رکھنا چاہتا ہے کیونکہ برطانیہ یہ نہیں کر سکتا ہے کہ اپنی مرضی کی چیزوں میں تو شامل ہو اور باقی کو چھوڑ دے۔
جرمنی کے دارالحکومت برلن میں یورپی یونین کے چھ بانی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے ژاں کلود ہنکر کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے میں اپنی مرضی چلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا (کیونکہ) جو نکل گیا وہ نکل گیا۔‘
’اب جو کام کرنے کا ہے وہ اس طلاق کو صاف ستھرے طریقے سے مکمل کرنا ہے کیونکہ شہریوں اور کاروباری دنیا کو اس فیصلے کی قانونی حیثیت معلوم ہونی چاہیے۔‘
بانی رکن ممالک کے اجلاس سے پہلے فرانس کے وزیر خارجہ نے بھی یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کے عمل کو جلد مکمل کرنے پر زور دیا۔
اجلاس کے لیے روانہ ہونے سے پہلے ژاں مارک ایرالت نے کہا کہ یہ بات یورپی یونین اور برطانیہ، دونوں کے مفاد میں ہے کہ برطانیہ کے ساتھ اتحاد سے نکلنے کے فیصلے پر جلد از جلد بات کی جائے کیونکہ اتحاد میں شامل دیگر 27 ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس اتحاد کو ایک نیا مقصد فراہم کریں ورنہ یہ اتحاد عوامیت کی نظر ہو جائے گا۔
فرانسیسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ہماری ساری توجہ جرمنی اور فرانس کے سرکاری افسران کے تجویز کردہ اس خاکے کو حتمی شکل دینے پر نہیں صرف ہونی چاہیے ’جس میں رکن ممالک کو ’ایسی فضا‘ مہیا کی جائے کہ وہ جتنی شمولیت کرنا چاہتے ہیں کریں اور جب چاہیں اتحاد کے معاملات میں شامل نہ ہوں۔‘
اگلے ہفتے یورپی یونین میں شامل ممالک کے سربراہی اجلاس میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرن کے شمولیت کے حوالے سے فرانسیسی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ منگل کو اس اجلاس میں ’ڈیوڈ کیمرن پر شدید دباؤ ہوگا کہ وہ برطانیہ کے اخراج کو حتمی شکل دیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم 27 ارکان کو متفق ہونا پڑے گا کہ ایک طے شدہ تاریخ کے بعد برطانیہ کے اخراج والا معاملہ مکمل ہو جائے گا، لیکن مسٹر ایرالت نے یہ نہیں کہا کہ منگل کے اجلاس میں ایسی کوئی تاریخ طے کر دی جائے گی۔
واضح رہے کہ یورپی رہنما برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین کو جمعرات کو ہونے والے تاریخی ریفرینڈم کے بعد ’علیحدگی‘ کے مضمرات پر بحث کے لیے منگل اور بدھ کو سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔
برطانوی عوام کی اکثریت نے یورپی یونین سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ دیا ہے، جب کہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ وہ اکتوبر میں عہدے سے الگ ہو جائیں گے۔
برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کی خبروں کے بعد دنیا بھر میں بازارِ حصص میں مندی دیکھنے میں آئی اور برطانوی پاؤنڈ عشروں کی ریکارڈ سطح تک گر گیا۔
ڈونلڈ ٹسک نے کہا تھا کہ اس ’مبینہ طلاق کے عمل‘ پر برطانیہ کے علاوہ یورپی یونین کے تمام ملک بدھ کو بات چیت کریں گے۔
ادھر سنیچر کو فرانس کے مرکزی بینک کے صدر نے خبردار کیا ہے کہ اگر برطانیہ یورپ کی مشترکہ مارکیٹ میں شامل نہیں رہےگا تو برطانوی بینکوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہے گا وہ اپنی سرحد سے باہر یورپی بینکنک کے مشترکہ نظام میں آزادنہ حصہ لے سکیں گے۔
سکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر (وزیر اعلیٰ) نکولا سٹرجن کا کہنا ہے کہ وہ برسلز میں یورپی اتحاد کے صدر دفتر سے ’فوری بات چیت‘ کے لیے رابطہ کرنے جا رہی ہیں تاکہ وہ برطانیہ کے اخراج کے فیصلے کے بعد یورپی اتحاد میں سکاٹ لینڈ کی شمولیت کو بچا سکیں۔