باضابطہ درخواست سے پہلے غیر رسمی بات چیت نہیں ہو گی
یورپی اتحاد کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ برطانیہ سے اس وقت تک غیر رسمی بات چیت نہیں کی جائے گی جب تک اتحاد چھوڑنے کے لیے باضاطہ درخواست نہیں دی جاتی۔
پیر کو برلن میں جرمن چانسلر چانسلر انگیلا میرکل کی فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند اور اطالوی وزیراعظم ماتیو رینزی سے بات چیت ہوئی۔
ان ملاقاتوں کے بعد جرمن چانسلر نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی ریفرینڈم میں یورپی اتحاد سے نکلنے کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے اسے’ بہت تکلیف دے اور قابل افسوس‘ قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ یورپی اتحاد کے معاہدے کا آرٹیکل 50 بہت واضح ہے جس کے تحت اگر کوئی رکن ملک یورپی اتحاد کو چھوڑنا چاہتا ہے تو اسے باضطہ طور پر یورپی کونسل کو آگاہ کرنا ہو گا
جرمن چانسلر کے مطابق اس اقدام کے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا ہے اور درخواست کے بعد یورپی کونسل بات چیت کے باقاعدہ اصول جاری کرے گا اور اس کے تحت کے اخراج پر بات چیت کی جائے گی۔
یورپی یونین کا کہنا ہے کہ برطانیہ آرٹیکل 50 کے استعمال کرتے ہوئے باضابطہ اعلان، خط یا پھر بیان کے ذریعے یونین سے علیحدگی اختیار کر سکتا ہے اور معاہدے کے تحت علیحدگی کے اعلان کے بعد دو سال کے اندر اندر علیحدگی کا عمل مکمل ہو گا۔
جرمن چانسلر کے مطابق:’اس کا مطلب ہے کہ اس نکتے پر ہم متفق ہیں، برطانیہ کے نکلنے پر اس وقت تک مزید غیر رسمی یا رسمی بات چیت کرنے کی مزید ضرورت نہیں جب تک یورپی کونسل کو برطانیہ کی جانب سے باقاعدہ درخواست موصول نہیں ہو جاتی۔‘
اس موقعے پر فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند اور اٹلی کے وزیراعظم ماتیو رینزی نے زور دیا کہ برطانیہ کے اخراج کے عمل کو جتنی جلدی ممکن ہو سکے شروع کیا جانا چاہیے تاکہ اتحاد کے باقی 27 ممالک دہشت گردی اور اپنی سرحدوں کو مستحکم کرنے جیسے چیلنجز پر توجہ دے سکیںگ
صدر اولاند نے کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم برطانیہ کے نکلنے کے سوال سے نمٹنے اور باقی 27 ممالک کے بارے میں نئے سوالات پر وقت ضائع نہ کریں کیونکہ اس میں غیر یقینی کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔
اٹلی کے وزیراعظم ماتیو رینزی نے کہا کہ ہم ایک طرف ہم افسردہ ہیں لیکن دوسری طرف یہ درست وقت ہے کہ ہم یورپی تاریخ میں نئی صفحے کا اضافہ کریں جو ہمیں متحد رکھے گا۔
برلن میں ملاقات سے پہلے صدر فرانسوا اولاند نے کہا تھا کہ یورپی یونین چھوڑنے کے برطانوی فیصلے کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے پر ان میں ’مکمل مفاہمت‘ ہے۔اولاند نے متنبہ کیا کہ علیحدگی کے بعد ’ہمیں تقسیم، نااتفاقی اور جھگڑے کا خطرہ ہے۔
دریں اثنا ایشیائی بازاروں میں ابتدائي کاروبار کے دوران برطانوی پاؤنڈ کی قدر و قیمت میں مزید کمی آئی ہے۔
دوسری جانب برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے پارلیمان سے خطاب میں کہا کہ برطانیہ رسمی طور پر یورپی اتحاد سے نکلنے کے عمل کے لیے تیار نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے ہمیں اس چیز کا تعین کرنا ہو گا کہ ہمارے یورپی اتحاد سے کس طرح کے تعلقات ہوں گے۔
وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے مطابق ان کے جانشین موسم خزاں تک منتخب ہو جائیں گے اور وہ ہی آرٹیکل 50 کے تحت کارروائی شروع کریں گے۔
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی مہم کی سربراہی اور ڈیوڈ کیمرون کی جگہ لینے کی خواہش رکھنے والے لندن کے سابق میئر بورس جانسن نے کہا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین کے ساتھ تعاون میں ’اضافے‘ کی کوشش جاری رکھے گا۔
اتوار کو مسٹر اولاند نے کہا کہ برطانیہ کے فیصلے کو اب واپس نہیں لیا جائے گا۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ’جو کبھی ناقابل تصور تھا اب وہ ناقابل تنسیخ ہے