برمودا ٹرائی اینگل میں جاکر بڑے بڑے بحری جہاز بھی اچانک غائب کیوں ہوجاتے ہیں؟‘ بالآخر معمہ حل ہوگیا
اوسلو : برمودا ٹرائی اینگل کا جب بھی ذکر ہو تو ذہن میں ایک ایسے پراسرار طلسم کدے کا تصور ابھرتا ہے کہ جس کی جانب جو بھی چیز جاتی ہے کبھی لوٹ کر نہیں آتی۔ اب تک درجنوں ہوائی جہاز اور سینکڑوں بحری جہاز اس خوفناک سمندری علاقے میں ہمیشہ کے لئے لاپتہ ہوچکے ہیں۔ برطانیہ کی سمندری حدود، امریکی شہر فلوریڈا کے ساحل اور پورٹوریکو کے ساحل کے درمیان واقع تکونی علاقے برمودا ٹرائی اینگل کے متعلق سب سے خوفناک بات یہی ہے کہ یہاں غائب ہونے والے بڑے سے بڑے بحری جہازوں کا کبھی سراغ نہیں ملا۔
اس حیرت انگیز معمے کے متعلق طرح طرح کی کہانیاں سامنے آچکی ہیں۔ کبھی اسے خلائی مخلوق کا مرکز کہا گیا تو کبھی کشش ثقل کے کائناتی دائروں کا مرکز قرار دیا گیا، لیکن اب پہلی دفعہ سائنسدانوںنے برمودا ٹرائی اینگل کے متعلق ایک ایسا راز دریافت کرلیا ہے کہ جو اس کے تمام تر اسرار سے پردہ اٹھاسکتا ہے۔
اخبار ڈیلی میل کے مطابق آرکیٹک یونیورسٹی آف ناورے کے سائنسدانوںنے پتہ چلایا ہے کہ برمودا ٹرائی اینگل کے علاقے میں سمندر کی تہہ میں انتہائی وسیع و عریض اور خوفناک حد تک گہرے گڑھے پائے جاتے ہیں، اور یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس علاقے میں غائب ہونے والے بحری جہازوں کو یہی گڑھے نگل لیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بحیرہ بارنٹس کے مغربی حصے میں سمندر کے پیندے میں اتنے بڑے گڑھے پائے گئے ہیں کہ جن کا قطر نصف میل تک ہے جبکہ ان کی گہرائی سینکڑوں فٹ ہے۔
سائنسدانوں نے ان گڑھوں کی وجہ سمندر کی تہہ میں پائی جانے والی میتھین گیس کو قرار دیا ہے۔ جب اس گیس کی بڑی مقدار جمع ہوجاتی ہے تو اس کے دباﺅ کی وجہ سے سمندر کی تہہ پھٹ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں بڑے بڑے گڑھے پیدا ہوتے ہیں۔ میتھین گیس کے دھماکوں کی وجہ سے سمندری پانی کا درجہ حرارت بھی بڑھ جاتا ہے، اور یہی صورتحال اس سمندری علاقے میں تیرنے والے بحری جہازوں کو نگلنے کا سبب بنتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر کسی طرح سینکڑوں فٹ گہرے گڑھوں کی تہہ میں دیکھنا ممکن ہوسکے تو برمودا ٹرائی اینگل میں غائب ہونے والے بحری جہازوں کی باقیات بھی مل سکتی ہیں۔