دنیا

بھارت کی ابھرتی ہوئی بے قابو مذہبی تنظیمیں

پچھلے دنوں ہریانہ کی بعض خود ساختہ ہندو تنظیموں کی جانب سے ایک ویڈیو پبلیسیٹی کے لیے جاری کیا گیا۔ اس ویڈیو میں دو مسلم نوجوانوں کو ’گناہوں سے پاک‘ کرنےکے لیے جبرا گائے کا پیشاب اور گوبر کھلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ان دونوں نوجوانوں کے ورم زدہ چہروں سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں اس ایزا رسانی سے پہلے بری طرح زد وکوب کیا گیا تھا۔ نام نہاد ’گؤ رکشک‘ تنظیم کے کارکنوں نے ان دونوں نوجوانوں کو گائے کا تاجر ہونے کی پاداش میں یہ سزائیں دی تھیں۔

کچھ دنوں پہلے بھی اسی طرح کی ایک اور ویڈیو ہریانہ سے سامنے آئی تھی جس میں ’گؤ رکشا‘ تنظیم کے کئی کارکن پولیس کی موجودگی میں دو مسلم ٹرانسپورٹروں کو لاٹھیوں سے پیٹ رہے تھے۔ انھیں نیم مردہ حالت میں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

ہریانہ میں چند مہینے پہلےگؤ کشی پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے اور ریاست میں گائے، بھینس اور دوسرے مویشیوں کو لانا، لے جانا کافی پر خطر ہو چکا ہے۔ ہندوؤں کے مذہبی عقیدے کے پیش نظر ملک کی بیشتر ریاستوں میں گؤ کشی پر پابندی عائد ہے۔

ہریانہ ہی نہیں ملک کی دوسری ریاستوں سے بھی مویشیوں کے تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کو ہلاک کرنے اور انھیں زد و کوب کرنے کی خبریں وقتاً فوقتاً آتی رہی ہیں۔

ان واقعات میں تشدد کرنے والوں کو عموماً ریاست کا تحفظ حاصل ہوتا ہے اور زدوکوب کیے جانے والے تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کو ہی ’وجےلانتے‘ گروپ کی شکایت پر تشدد کے بعد گرفتار کیا جاتا ہے۔

حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشل نے صورت حال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تشدد کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے جو گائے کے تحفظ کے نام پر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

ایمنسٹی نے کہا ہے کہ گؤ کشی پر پابندی کے قانون کو مذہبی اقلیتوں کے لوگوں پر حملے کو جائز قرار دینے کے لیے استمعال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔

مویشوں کے تاجروں کو زدوکوب کرنے کی ویڈیو کی پبلیسٹی کا بظاہر مقصد مویشیوں کے تاجروں اور ٹرانسپورٹروں میں خوف وہراس پیدا کرنا ہے تاکہ وہ بالآخر گوشت کے کاروبار پر روک لگا سکیں۔

بھارتی میڈیا میں بھی مویشیوں کےتاجروں اور ٹرانسپورٹروں کے لیے اب اکثر ’مویشیوں کے اسمگلرز‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ ایک ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے گائے، بھینس اور بکروں وغیرہ کا ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا قانوناً جرم ہے۔

گؤ رکشا تنظیمیں دراصل سخت گیر ہندو تنظیموں کاہی حصہ ہیں اور وہ صرف بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں ہی نہیں اتر پردیش، دہلی اور بہار جیسی غیر بی جے پی ریاسترں میں بھی خاصی سرگرم ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے چند علاقوں میں پابندی کے باوجود غیر قانونی طور پر گئو کشی کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ ان پر قابو پانے کے لیے قانونی طریقۂ کار اور موثر انتظامی کارروائی کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مقامی برادریوں میں بھی اس کے بارے میں بیداری پیدا کی جانی چاہیے کہ یہ صرف ایک غیر قانونی سرگرمی ہی نہیں، اس سے مذہبی منافرت کو بھی ہوا مل رہی ہے۔

لیکن کسی تنطیم یا گروپ کو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ بہت سےلوگ ان ’وجے لانتے‘ خود ساختہ تنظیموں کی ان غیر قانونی حرکتوں کو ابھی تک اس لیے نظر انداز کر رہے ہیں کیونکہ گائے کا سوال ان کے لیے ایک مذہبی معاملہ ہے۔

لیکن اگر ملک میں خود ساختہ تنطمیوں کوگائے کے تحفظ کے نام پر قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت دی گئی تو یہ مستقبل کے لیے خطرناک ہوگا۔ وقت گزرنےکےساتھ یہ چھوٹے چھوٹے گروپ اور تنظیمیں ماورائے آئین بن جائیں گی، ان پر کسی کا زور نہیں ہو گا اور وہ مستقبل کی منتخب حکومتوں اور قانون کی بالادستی سے براہ راست متصادم ہوں گی۔

لیکن یہ بات اسی وقت سمجھ میں آ سکتی ہے جب ریاست اور سیاست کو مذہب سے الگ رکھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں طویل عرصے سے معاشرہ ہی نہیں سیاست بھی مذہب کی جانب مائل ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close