آکٹوپس کے رنگ بولتے ہیں
ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ آکٹوپس رنگ بدل کر اپنی نیت کا اظہار کرتا ہے اور اس کے سماجی تعلقات اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں جتنا اس سے پہلے سمجھا جا رہا تھا۔
حیاتیات کے ماہرین نے آسٹریلیا کے مشرقی ساحل پر سڈنی کے آکٹوپس پر تحقیق کے دوران ان کے مختلف رویوں پر غور کیا جس سے ان کے پیچیدہ سماجی اشاروں کا پتہ چلا۔
تحقیق کے مطابق جو آکٹوپس لمبا ہو کر کھڑا ہو، رنگ گہرا کر کے اپنا جسم پھیلا دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس وقت جارحانہ کیفیت میں ہے۔
اس کے برعکس لڑائی ہارنے کے بعد یا لڑائی سے بچنے کے لیے آکٹوپس اپنا رنگ ہلکا کر دیتا ہے۔
پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ آکٹوپس تنہائی پسند جانور ہے، اور صرف حملہ آوروں سے بچنے کے لیے جسمانی رنگ بدلتا ہے۔
لیکن تحقیق میں شامل پروفیسر پیٹرگاڈفری سمتھ کا کہنا ہے کہ نئی تحقیق آکٹوپس کے رویے کے متعلق تازہ معلومات فراہم کرتی ہے۔
یہ تحقیق کرنٹ بائیالوجی نامی سائنس کے جریدے میں جمعے کو شائع کی گئی اور اس دوران سائنس دانوں نے 53 گھنٹوں کی فوٹیج کا مشاہدہ کیا۔
پروفیسر گاڈ فری سمتھ کہتے ہیں: ’آکٹوپس جارحانہ انداز میں آ کر اپنے رنگ گہرے کر دیتا ہے، اس طرح کھڑا ہو جاتا ہے کہ اس کا جسم اصل سے بڑا دکھائی دے اور ایسی پوزیشن میں وہ اونچے مقام پر چلا جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق آکٹوپس کوشش کرتا ہے کہ اپنے آپ کو جتنا ممکن ہے، اتنا بڑا دکھا سکے۔ اس دوران وہ اپنے بازؤں کو اوپر نیچے پھیلا دیتا ہے اور جسم کے پچھلے حصے کو سر کے اوپر کر دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنا رنگ بھی گہرا کر دیتا ہے، جس سے جسامت زیادہ بڑی نظر آتی ہے۔
جب جارحانہ انداز ختم ہو جاتا ہے کہ آکٹوپس رنگ ہلکا کر دیتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ لڑائی کے بعد اپنے بل میں واپس آ رہا ہوتا ہے یا جب وہ کسی جارح نر کے سامنے ہوتا ہے۔
پروفیسر گاڈ فری سمتھ کے مطابق: ’فرض کریں کہ وہاں پر کوئی دوسرا بڑا جارح آکٹوپس موجود ہے تو آپ رنگ ہلکا کر کے اپنے بل کی طرف لوٹتے ہیں تا کہ اس سے پیغام جائے کہ آپ ٹکراؤ کے موڈ میں نہیں ہیں۔‘
اسی طرح کی خصوصیات دوسرے اقسام کے سمندری جانوروں، مثلاً کٹل فش، میں بھی پائی گئی ہیں۔ ان میں بھی جارح نر اپنا رنگ لڑائی سے الگ ہوتے وقت ہلکا کرنے لگتے ہیں۔