میں 1993ءسے غزہ سے رپورٹنگ کر رہی ہوں، لیکن آج پہلی دفعہ فلسطینیوں سے یہ بات سن رہی ہوں کہ۔۔۔‘ معروف صحافی نے ایسا انکشاف کردیا کہ ہر کسی کو ہلا کر رکھ دیا
اہل فلسطین پر اسرائیل کے مظالم یوں تو دہائیوں سے جاری ہیں لیکن شاید یہ پہلا موقع ہے کہ ایک جانب غاصب فوج کے مظالم آخری حدوں کو چھو رہے ہیں تو دوسری جانب دنیا بھر میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں بولنے والا کوئی بھی نہیں۔ گزشتہ پچیس سال سے غزہ سے رپورٹنگ کرنے والی غیر ملکی صحافی سارہ ہیلم حال ہی میں جب ایک بار پھر غزہ گئیں تو مظلوموں کی حالت زار دیکھ کر ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔اخبار ’دی انڈیپنڈنٹ‘ میں شائع ہونے والے اپنے خصوصی مضمون میں سارہ لکھتی ہیں ” آج صبح میں غزہ کے علاقے میں فلسطینی خاتون ریما کے گھر پہنچی تو اس کے پہلے الفاظ یہ تھے ’سارہ، یہ تباہی ہے، یہ قتل عام ہے۔‘ میں نے اس کی آواز سن کر سکھ کی سانس لی کہ وہ زندہ تو ہے، کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ بھی اپنے اہلخانہ کے ساتھ احتجاج کے لئے گئی ہوئی تھی۔ وہ بتا رہی تھی ’ہم پر آنسو گیس پھینکی گئی لیکن میں ٹھیک ہوں۔ میرے چھوٹے بھائی کی ٹانگ میں گولی لگی۔ ہمیں پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں ہے۔ وہ ہجوم میں کہیں کھوگیا تھا۔ پھر ہمیں کسی نے بتایا کہ وہ ہسپتال میں ہے۔ وہ ہمیں وہاں مل گیا، شکر ہے کہ اس کی جان بچ گئی تھی۔ اس دن ہم نے وہاں ہر طرف لاشیں ہی لاشیں دیکھیں۔ ہم سب بہت خوفزدہ ہیں۔ ہمیں لگ رہا تھا کہ وہ ہم سب کو قتل کردیں گے۔“سارہ کہتی ہیں کہ ”اس روزمیں نے دیکھا کہ غزہ میں ہونے والی ہلاکتیں عالمی میڈیا کی خبروں کا موضوع تھیں۔ اقوام متحدہ اور کئی عالمی رہنماﺅں کی جانب سے بھی قتل عام کی مذمت کی گئی تھی اور نہتے فلسطینیوں کے قتل کو المناک اور افسوسناک قرار دیا گیا تھا۔ کیا یہ کافی ہے؟ فلسطینیوںکو صرف لفظی ہمدردی نہیں چاہیے، ان کی ضرورت اس سے کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ اب وہ جان چکے ہیں کہ جلد ہی خبروں سے ان کا تذکرہ ختم ہوجائے گا اور دنیا کی توجہ کہیں اور ہوجائے گی۔ فلسطینی اسرائیل کے ساتھ 1948ءکی جنگ ہارے تو انہیں ان کے گھروں اور زمینوں سے نکال دیا گیا۔ گزشتہ دہائیوں کے دوران انہوں نے اپنی بچی کچی زمینیں بھی کھودی ہیں۔ مغربی کنارے سے غزہ کو الگ تھلگ کردیا گیا ہے جہاں یہودیوں کی بستیاں ہر نئے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں کی کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں اب فلسطینیوں سے بطور انسان زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔میں پہلی بار 1993ءمیں غزہ گئی جب اسرائیل کے خلا ف فلسطینیوں کی پہلی بغاوت کی میں نے کوریج کی تھی۔ اخبار ’دی انڈیپینڈنٹ‘ میں میری پہلی سٹوری کا عنوان تھا ’غزہ کے بچے بندوقوں کے سائے تلے زندہ ہیں اور مررہے ہیں۔‘ اس وقت بھی صورتحال المناک تھی لیکن کم از کم فلسطینیوں میں اتنی سکت تھی کہ وہ قبضے کے خلاف جنگ لڑرہے تھے اور امن کا کوئی امکان باقی تھا۔ ان دنوں غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر اسرائیل کے قبضے کو غیر قانونی کہا جاتا تھا۔ جب میں دوبارہ 2014ءمیں غزہ گئی تو امن کی امیدوں کو دم توڑتے ہوئے پایا۔ غزہ کے 2500 سے زائد افراد اپنی جانیں قربان کرچکے تھے۔ اب کی بار میں غزہ آئی ہوں تو یہ المیہ اپنی بدترین صورت اختیار کرچکا ہے ۔ اب فلسطینیوں کی امید بھی ختم ہوگئی ہے اور ان کے پاس موت کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ احتجاج میں شامل ایک فلسطینی ٹیچر کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں ’دنیا اب ہمارے بارے میں نہیں سوچتی۔ انہیں معلوم بھی نہیں کہ ہم کون ہیں۔ کوئی ہماری کہانی کو نہیں جانتااور نہ ہی ہماری فکر کرتا ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہم جانور ہیں جو کسی پتھر کے نیچے زندگی کے دن پورے کررہے ہیں۔“