مراکش کے ریگستان میں آسمانی خزانوں کی تلاش
رباط: مراکش کے تپتے ریگستانوں میں خانہ بدوش آسمان سے گرنے والے قیمتی شہابِ ثاقب جمع کرکے فروخت کررہے ہیں لیکن اس کےلیے کئی دنوں تک صحرا کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔ یہ چھوٹے بڑے پتھر بین الاقوامی مارکیٹ میں مہنگے داموں میں فروخت ہوتے ہیں۔
جنوبی مراکش میں خانہ بدوشوں کے پاس طاقتور مقناطیس اور مکعب عدسے ہوتے ہیں جن سے وہ شہابیوں کو تلاش کرتے ہیں ۔ ایک 59 سالہ سابقہ ٹیچر نے کہا کہ بسا اوقات کوئی پتھر سونے اور پلاٹینم سے بھی قیمتی ہوتا ہے اور ایک گرام دھاتی شہابیہ ایک ہزار ڈالر یعنی ایک لاکھ روپے میں فروخت ہوسکتا ہے۔ اس کا انحصار شہابیے (میٹیورائٹ) کی شکل اور اس میں موجود دھات پر ہوتا ہے۔
ایک اور شخص عبدالرحمان نے بتایا کہ اسے 600 گرام کا ایک آسمانی پتھر ملا جس کے ہر گرام کو اس نے 80 ہزار روپے میں فروخت کرکے خطیر رقم کمائی تھی۔ اس نے بتایا کہ 2000 کے بعد تمام خانہ بدوش شہابیوں کی تلاش میں دن رات مصروف رہتے ہیں۔شہابئے جمع کرنے کے شوقین، سائنسداں اور بین الاقوامی نیلام گھر کے نمائندے ہر سال مراکش آتے ہیں اور ارفود، تاتا اور زغورہ کے علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں کی سفید مٹی میں شہابی پتھر آسانی سے نظر آجاتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بین الاقوامی سائنسی جرائد میں شہابیوں پر جتنے تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں ان میں مراکش کا ذکر ضرور ہوتا ہے کیونکہ یہ خطہ اس لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔
سائنسدانوں کے لیے یہ نظامِ شمسی پر تحقیق کا اہم ذریعہ ہے اور ہر پانچ میں سے ایک شہابیہ قیمتی ہوتا ہے۔ اس جگہ شہابیوں کی برسات ہوتی رہتی ہے جس سے ہربار یہ خزانہ بڑھتا رہتا ہے۔ مراکش میں اس خزانے کےلیے قانون موجود نہیں اور یہی وجہ ہے کہ لوگ انہیں جمع کرکے ذاتی طور پر فروخت کررہے ہیں۔
2011 میں تاتا میں ایک پتھر گرا جس کا وزن 7 کلوگرام تھا جس کی فی گرام قیمت 500 سے 1000 ڈالر تھی ۔ لیکن اس کا انحصار خوش بختی پر بھی ہوتا ہے بسا اوقات ہفتوں کوئی شہابیہ نہیں ملتا اور کبھی تو ایک دن میں دو پتھر بھی ہاتھ آجاتے ہیں۔ ان میں سے قیمتی شہابیے نیویارک اور پیرس کے آکشن ہاؤسز میں فروخت ہوتے ہیں۔