دنیا

افغانستان میں بچوں کی ہلاکتوں میں شرمناک اضافہ

صرف کابل میں سنیچر کو ہزارہ برادری کی احیجاجی ریلی پر ہونے والے خودکش حملے میں 80 سے زیادہ افراد ہلک ہوئے اور اس حملے کی ذمہ داری خود کو دولتِ اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم نہ قبول کی۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید راد الحسین نے کہا ہے کہ ان کی ٹیم نے گذشتہ چھ ماہ میں پرتشدد واقعات کا نشانہ بننے والے خاندانوں کی پانچ ہزار کہانیاں سنی جس میں ایک تہائی ہلاک یا زخمی ہونے والے بچوں سے متعلق تھیں۔

اقوام متحدہ نے جنوری 2009 سے افغانستان میں ہلاک یا زخمی ہونے والے شہریوں کا ریکارڈ مرتب کرنا شروع کیا ہے۔

اور اس وقت سے افغانستان میں تشدد کے واقعات میں 63 ہزار 934 عام شہری زخمی یا ہلاک ہوئے جبکہ ان میں ہلاکتوں کی تعداد 22 ہزار 941 ہے۔

رواں برس کے پہلے چھ ماہ میں تشدد کے واقعات میں 1601 عام شہری مارے گئے جن میں 388 بچے اور 130 خواتین شامل ہیں۔

اسی عرصے کے دوران زخمیوں کی تعداد 3 ہزار 565 ہے جن میں 1121 بچے اور 377 خواتین شامل ہیں۔

پہلے چھ ماہ کے دوران ایک لاکھ 57 ہزار 987 افراد نے ملک کے اندر نقل مکانی کی اور یہ تعداد گذشتہ برس کے مقابلے میں 10فیصد زیادہ ہے۔ کرنے والوں کی تعداد گذشتہ برس کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ تھی

اقوام متحدہ نے اس کے ساتھ خبردار بھی کیا کہ یقیناً اعداد و شمار اندازوں سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزی کے الزامات کا ذکر کیا ہے جس میں بچوں کا مسلح تنازع میں استعمال، بچوں پر جنسی تشدد، ارادی طور پر وکلا، کارکنوں، نمایاں خواتین، قتل کی سزا دینا اور صحت، تعلیمی مراکز پر حملے وغیرہ شامل ہیں۔

افغانیوں کو کون مار رہا ہے؟

افغان حکومت مخالف عناصر ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کے 60فیصد کے ذمہ دار ہیں جس میں خاص کر طالبان اور دولت اسلامیہ شامل ہیں تاہم رواں برس ہلاک ہونے والے عام شہریوں میں سے 1180 کا تعلق حکومت کی حامی فورسز سے بیان کیا گیا ہے اور یہ تعداد بھی گذشتہ برس کے اسی عرصے سے 47 فیصد زیادہ ہے۔

افغانستان سے 2011 سے غیر ملکی فوجیوں کا انخلا شروع ہونے اور دسمبر 2014 میں نیٹو مشن کے اختتام کے بعد سے ملک میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی واقعات میں ہر برس اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے خصوصی مشیر تادمیچی یامموتو نے کہا ہے کہ ہر ہلاکت وعدوں کی ناکامی کی نمائندگی کرتی ہے اور مصیبتیں کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ تاریخ اور افغان شہریوں کی مجموعی یادداشت تمام فریقین کو اس تنازع میں ان کے اصل طرز عمل کے بارے میں فیصلہ دے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close