مغربی ممالک کے برخلاف ایران اور روس نے اردوغان کی حکومت کی حمایت کی اورفوجی بغاوت کی مذمت کی
ترکی میں فوجی بغاوت اور ایران اور روس کی جانب سے بغاوت کی مذمت کرنے کے بعد اور فوجی بغاوت کے شروعاتی دور میں مغربی حلقوں اور حکام کی خاموشی اور اس کے بعد فتح اللہ گولن کی سپردگی کے حوالے سے ترکی اور امریکی حکام کے درمیان کشیدگی کے مد نظر کچھ میڈیا اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شاید ترکی نے اپنی خارجہ پالیسی کو کافی تبدیل کر لے۔ پالیسی میں تبدیلی ممکن ہے کہ ترکی کے ایران اور روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے تناظر میں یا مغربی ممالک یا امریکا سے اس ملک کی دوری کے تناظر میں ہو۔
اسی تناظر میں روسی سایٹ آر بی ٹی ايچ اور امریکا کی ویب سایٹ المانیتور نے اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے ہو سکتا ہے ترکی، ایران اور روس جانب رجحان پیدا کر لے۔ ان سایٹوں کا کہنا ہے کہ ترکی کی حالیہ فوجی بغاوت نے ترکی اور مغرب کے درمیان شگاف بڑھا دیا ہے۔ ایسا شگاف جو فوجی بغاوت کے بعد ہونے والی گرفتاریوں اور مخالفین کی سرکوبی کے بعد مزید گہرا ہو گيا۔ اس عمل نے ترکی کو ایران اور روس سمیت مغربی حریفوں سے تعلقات میں بہتری جانب لے جانے پر مجبور کر دیا۔ ان روسی ذرائع ابلاغ نے لکھا کہ اب تک صدر اردوغان، بشار اسد کے مخالفین کی حمایت کرکے ایران اور روس کے ساتھ ایک نیابتی جنگ میں مشغول کر رکھا تھا کیونکہ ایران اور روس بشار اسد کے مخالفین سے برسرپیکار ہیں لیکن حال ہی میں خاص طور پر ترکی میں فوجی بغاوت اور ایران اور روس کی جانب سے اس ملک کی حکومت کی حمایت کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تہران اور ماسکو کے ساتھ خاص طور پر شام کے حوالے سے اس ملک کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا مشاہد کیا جائے۔ روس کی ان سایٹ کا کہنا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوغان نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ امریکا سے تعلقات اسی وقت صحیح ہو سکتے ہیں جب وہ امریکا میں مقیم فتح اللہ گولن کو انقرہ کے حوالے کرے۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ حالیہ فوجی بغاوت میں فتح اللہ گولن کا ہاتھ ہے۔ ترکی کے اس اصرار کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہوگئے اور امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری نے بھی امریکا کی جانب سے باغیوں کی حمایت کے دعوے پر کہا تھا کہ ترک حکومت کا یہ دعوی کہ امریکا باغیوں کی کھل کر حمایت کرہا تھا، مکمل غلط ہے اور اس طرح کے بیان دو ملکوں کے تعلقات کے لئے بہت خطرناک ہے۔
ترک وزیر اعظم بن علی یلدیریم نے بھی امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ میں کسی بھی ملک کو نہیں پہچانتا جو اس مجرم دہشت گرد یعنی فتح اللہ گولن کا حامی ہو۔ جو ملک بھی اس کا حامی ہوگا وہ ترکی کا دوست ملک نہیں ہوگا۔ اس شخص کا حامی، عملی طور پر ترکی کا دشمن ہوگا۔
دوسری طرف امریکا کی ویب سایٹ المانیتور نے لکھا کہ امریکا کی قیادت والے اتحاد کا کہنا ہے کہ ترکی نے داعش اور دیگر تفکیری دہشت گرد گروہوں سے مقابلے کے لئے ضروری تعاون نہیں کر رہا ہے۔ ان سب سے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ترکی کے زیادہ تر افراد، اروغان کی جانب سے شام کے مخالف گروہوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے ترکی کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے لئے خارجہ دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ترکی کی سرزمین پر داعش کے حالیہ حملوں اور ترکی کی بدتر اقتصادی صورتحال اور اس ملک کے ایران اور روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے مد نظر، ترکی کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہاں پر یہ بات ذکر کرنا ضروری ہے کہ ایران اور روس علاقے اور بین الاقوامی سطح پر اہم ممالک کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
المانتیور نے آگے لکھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ترکی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد اردوغان نے اپنے غیر ملکی دوستوں کی فہرست میں نظر ثانی شروع کر دیا۔ یہ سایٹ آگے لکھتی ہے کہ مغربی ممالک کے برخلاف ایران اور روس نے اردوغان کی حکومت کی حمایت کی اور فورا ہی بغاوت کی مذمت کی۔