’سعودی عرب میں قید آمنہ کو برطانیہ آنے دیا جائے
21 سالہ آمنہ الجعفری برطانیہ میں پلی بڑھیں لیکن انھیں ان کے والد محمد 2012 میں جدہ لے گئے تھے، جن کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد آمنہ کی ’زندگی بچانا‘ تھا۔
البتہ جسٹس ہولمین نے کہا کہ آمنہ کو ’آزادی سے محروم‘ رکھا گیا ہے اور ان کے والد کو ان کی واپسی میں مدد دینی چاہیے۔
آمنہ الجعفری کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے ’ایک مرد کو بوسہ دیا‘ تو اس کے بعد ان کے والد انھیں ان کی مرضی کے خلاف سعودی عرب لے گئے۔
عدالتی حکم جاری کرتے ہوئے جسٹس ہولمین نے کہا کہ اگر آمنہ ویلز یا انگلستان آنا چاہتی ہیں تو مسٹر الجعفری کو 11 ستمبر تک لازماً اس کی اجازت دینی چاہیے اور ان کی مدد کرنی چاہیے اور ان کے ہوائی سفر کا کرایہ دینا چاہیے۔‘
تاہم انھوں نے تسلیم کیا کہ الجعفری اس عدالتی حکم نامے کو ماننے کے پابند نہیں ہیں اور انھیں مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم اگر الجعفری اگر کبھی برطانیہ آئے تو انھیں توہینِ عدالت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
آمنہ کی وکیل این میری ہچنسن کا کہنا ہے کہ 25 دسمبر 2015 کے بعد سے ان کا آمنہ سے رابطہ نہیں ہے۔ ان کے مطابق آمنہ کو ’مارا پیٹا گیا ہے‘ اور انھیں بعض اوقات کمرے سے باہر نکلنے نہیں دیا جاتا۔
انھوں نے توقع ظاہر کی کہ الجعفری اس عدالتی حکم نامے کی پیروی کریں گے۔
سارہ کیمپبیل کا تجزیہ
آمنہ اور ان کے والد عدالت میں موجود نہیں تھے، اور سوال یہ ہے کہ ایک برطانوی عدالت کا سعودی عرب میں کیا عمل دخل ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب دہری شہریت کو تسلیم نہیں کرتا، اور یہ بات بھی معنی خیز ہے کہ الجعفری کے عدالتی اخراجات سعودی سفارت خانہ برداشت کر رہا ہے۔
اس کے باوجود جج کا کہنا تھا کہ کچھ نہ کرنا آمنہ کے بارے میں لاپروائی برتنے کے مترادف ہوتا۔
جج نے یہ بھی کہا کہ اگر آمنہ گھر سے بھاگ جائیں تو سعودی پولیس انھیں تحفظ فراہم کرنے کی بجائے الٹا پکڑ کر قید کر لے گی۔
الجعفری کی اہلیہ اور کئی دوسرے بچے اب بھی برطانیہ میں مقیم ہیں۔
سوانسی سے تعلق رکھنے والی آمنہ نے اپنے برطانوی دوستوں سے رابطہ کر کے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ برطانوی سفارت خانے کو ان کی حالت سے مطلع کریں۔
برطانوی دفترِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا: ’ہمیں علم ہے کہ یہ آمنہ الجعفری کے لیے مشکل صورتِ حال ہے۔ ہم انھیں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اور ہم نے انھیں برطانیہ میں وکیلوں سے رابطہ کرنے میں مدد دی ہے۔‘