ترکی اور روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر پریشان نہیں،وہ جس سے چاہے تعلق رکھے
ترکی میں بغاوت پر امریکہ اور یورپی یونین کا مبینہ طور پر دہرا رویہ اور امریکہ کی جانب سے بغاوت کے مبینہ مرکزی کردار کو ترکی کے حوالے نہ کئے جانے کے فیصلے نے ترکی کا جھکاﺅ روس کی جانب بڑھا دیا ہے۔منگل کے وز ترک صدر نے روسی دارالحکومت ماسکو کا دورہ کیا جہاں انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کی اور تعلقات کا ایک نیا دور شروع کرنے پر اتفاق کیا۔ان کی اس ملاقات سے عالمی سطح پر امریکہ اور ترکی کے درمیان تعلقات پر تبصروں کا ایک نیاسلسلہ شروع ہو گیا تھا جس پر امریکہ نے بھی باضابطہ بیان جا ری کردیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ایلزبتھ ٹروڈو کا کہنا ہے کہ ترکی کا روس کی جانب جھکاﺅ واشنگٹن اور ا نقرہ کے مابین تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ سینٹ پیٹرز برگ میں روسی اور ترک صدور کے درمیان9 ماہ بعدہونے والی اس ملاقات کے بارے میں ٹروڈو نے کہا کہ ترکی کے روس سے تعلقات بڑھانے پر ہم پریشان نہیں ہیں۔ترکی ایک خود مختار ملک ہے وہ جس سے چاہتے تعلقات استوار کرے۔ ٹروڈو کا کہناتھا کہ ترک کے روس سے تعلقات کا اصل مقصد، داعش کے خلاف جنگ سمیت شام کے عالمی حمایتی گروپ سے تعاون کرنا ہے۔ جہاں تک امریکہ سے تعلقات کا سوال ہے تو وہ کافی مضبوط ہیں۔ترجمان نے گولن کی ترکی کو حوالگی سے متعلق کہا کہ اس بارے میں ہم ترک حکومت سے رابطے میں ہیں۔