القاعدہ اورداعش سےوابستہ خواتین اپنےروز وشب کیسےگزارتی ہیں
آئے روز دنیا بھر میں بالخصوص عرب ملکوں، مغرب اور خلیجی ریاستوں کے سیکیورٹی حکام کے ہاتھوں شدت پسند گروپوں القاعدہ اور دولت اسلامی ‘داعش’ میں سرگرم خواتین کی گرفتاریوں یا ان کے بارے میں معلومات کے انکشافات ہو رہے ہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ نے ایک رپورٹ میں داعش اور القاعدہ سے وابستہ عورتوں کی ذمہ داریوں اور ان کے انجام کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داعش اور القاعدہ دونوں انتہا پسند تنظیمیں خواتین کو اپنے جنگی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ان دونوں تنظیموں کے ہاں خواتین جنگجوؤں کی نئی نسل پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں مگر القاعدہ اور داعشی عورتیں صرف بچے ہی جنم نہیں دیتیں بلکہ وہ جنگجو عورتوں کو تربیت فراہم کرتی، خواتین کو شدت پسندی کی طرف مائل کرنے میں مدد دینے کے ساتھ ساتھ خود بھی براہ راست عسکری کارروائیوں میں حصہ لے کر موت سے دوچار ہوتی ہیں۔
رواں سال مئی 2016ء کو کویتی حکام نے بتایا کہ ایک 70 سالہ داعشی خاتون نے اپنے دو بیٹے عراق اور شام کی جنگ میں جھونک دیے ہیں۔ کویتی سیکیورٹی حکام کے اس اعلان نے سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ ایک بڑھیا بھی داعش میں شامل ہو کر اپنے جواں سال بیٹوں کو جنگ کا ایندھن بنانے پر تلی ہے۔
داعش میں شامل ہونے والے کویتی علی محمد العصیمی المعروف ابو تراف کو اس کی والدہ حصۃ عبداللہ محمد ہی نے ورغلا کر داعش میں شامل ہونے پر آمادہ کیا۔ وہ خود بھی ترکی کے راستے چار سال قبل شام پہنچی جہاں داعش تنظیم نے 70 سالہ حصۃ عبداللہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اسے دہشت گرد جنگجوؤں کی بیگمات اور ان کی دیگر خواتین کو نظریاتی تعلیم دینے کی ذمہ داری سونپی۔
کویت میں گرفتار حصۃ عبداللہ کے بڑے بیٹے نے محمد العصیمی نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی والدہ کی تربیت اور ہدایت کے بعد داعش میں شامل ہوا مگر اس سے قبل اس کا چھوٹا بھائی عبداللہ محمد عمر بھی داعش میں شامل ہو کر عراق گیا جہاں وہ لڑائی کے دوران ہلاک ہو گیا تھا۔
عبد اللہ عمر کی عراق میں ہلاکت کے بعد بڑا بھائی برطانیہ میں پیٹرو انجینینرنگ کالج میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر والدہ کے ہمراہ شام روانہ ہو گیا جہاں انہوں نے الرقہ شہر میں داعش میں شمولیت اخیتار کی۔ داعش نے العصیمی کو پٹرول اور گیس کے شعبے کا انچارج مقرر کیا۔
خواتین کی ذمہ داریوں کی نئی شکل:
سعودی عرب میں خواتین کو شدت پسندانہ مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ایک الگ تصویر دکھائی دیتی ہے۔ یہاں بھی داعش اور القاعدہ خواتین کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے بلیک میل کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں شدت پسندی کی راہ پر چلنے والی 48 سالہ وفاء الیحییٰ نے اسلامیات میں گریجوایشن کیا۔ بعد ازاں اسلامی فقہ میں ایم کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ شاہ سعود یونیورسٹی میں لیکچرار بھرتی ہوئی۔ اس نے انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے خیالات کی تشہیر شروع کر دی۔ حتیٰ کہ شدت پسندوں کی ترجمان ویب سائیٹس ‘‘المدویہ’’، ‘‘البارقہ’’ اور ‘‘بارقۃ السیوف’’ میں جہاد، مجاھدین اور جنگی امور پرباعدہ اپنے تبصرے شائع کرنے شروع کیے۔
سنہ 2005ء میں وفاء اپنے تین بچوں 13 سالہ سارہ، 12 سالہ عبداللہ اور 5 سالہ نجلاء کے ساتھ اچانک روپوش ہو گئی۔ وہ چپکے سے سعودی عرب کی جنوبی سرحد عبور کر کے یمن داخل ہوئی اور وہاں سے عراق میں پہنچ کر داعش میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ سیکیورٹی اداروں کو اس کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ وفاء الیحییٰ کے سابق القاعدہ لیڈر ابو مصعب الزرقاوی کے ساتھ براہ راست بھی رابطے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عراق پہنچنے کے بعد اس نے الزرقاوی سے شادی بھی کی جس ایک بیٹا ہوا جس کا نام بھی الزرقاوی ہی رکھا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاء کی بڑی بیٹی سارہ عراق میں ایک القاعدہ جنگجو کے ساتھ بیاہ دہ گئی تھی مگر وہ ایک فضائی حملے کے دوران ہلاک ہوگئی۔ جب عبداللہ اور نجلاء شام میں ہیں۔
القاعدہ اور داعش کا قافلہ خواتین:
سوشل میڈیا پر ایسی خواتین کے ان گنت نام گردش میں رہتے ہیں جنہوں نے القاعدہ یا داعش میں شمولیت اختیار کر کے شہرت حاصل کی۔ انہیں تنظیموں کی طرف سے کوئی بڑی ذمہ داری سونپی گئی یا وہ کسی خوفناک انجام سے دوچار ہوئیں۔
القاعدہ اور داعش کےقافلہ خواتین کی فہرست بہت طویل ہے مگر ان میں سے چند ایک ناموں کی تفصیل یہاں پیش ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے داعش کے پرچارک کرنے والی ایک خاتون ‘‘الخنسا’’ کے نام سے کافی مشہور ہوئی۔ اس کے بعد اس قافلے میں ‘‘ھیلہ القصیر’’ شامل ہوئی جسے شدت پسندوں کے ہاں ‘‘مسز القاعدہ’’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی فہرست میں متحدہ عرب امارات کی ‘‘شبح الریم’’ اور ریما الجریش جو حال ہی میں شام میں ہلاک ہوئی نے شمولیت اختیار کی۔ القاعدہ اور داعش میں شامل ہونے والی عرب اور مغربی دو شیزائوں میں ایک نام ندا القحطانی کا بھی لیا جاتا ہے۔
شدت پسند تنظیموں میں شمولیت کےبعد بعض تو تھک ہار کر واپسی کے لیے کوشاں ہیں۔ بعض کو سیکیورٹی اداروں نے گرفتار کیا اور کچھ غاروں میں چھپتی پھرتی ہیں۔
شدت پسند خواتین میں وفاء الشھری المعروفہ ام ھاجر الازدی تعلیم ادھوری چھوڑ کر القاعدہ میں شمولیت کے لیے یمن پہنچی جہاں اس نے تین الگ الگ مردوں سے باری باری شادی کی۔ اس کے پہلے شوہر سعود القحطانی تھے جس سے ایک بچہ یوسف پیدا ہوا۔ قحطانی نے طلاق دی تو الشھری نے عبدالرحمان الغامدی سے شادی کرلی۔ الغامدی القاعدہ کی جزیرۃ العرب کی شاخ کا اہم کمانڈر سمجھا جاتا تھا مگر اسے مغربی سعودی عرب میں ایک کارروائی کے دوران ہلاک کر دیا گیا۔ غامدی سے شھری کی ایک بیٹی ہوئی جس کا نام ‘‘وصایف’’ رکھا گیا۔
وفاء الشھری کو دہشت گردی کی طرف مائل کرنے والا اس کا بھائی یوسف تھا جو خود بھی القاعدہ میں شامل ہونے کے بعد افغانستان میں لڑائی کے لیے گیا۔ وہ اس وقت گوانتا نامو جیل میں قید ہے۔
وفاء الشھری نے تیسری شادی سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے سعید الشھری نامی جنگجو جو اس وقت جزیرۃ العرب کی القاعدہ شاخ کا نائب سربراہ ہے سے کی۔ یہ تیسری شادی الشھری نے اپنے بھائی یوسف کے کہنے پر کی۔ سعید الشھری سے اس کی ایک بیٹی شذی ہوئی۔ بعد ازاں اس کا نام ‘‘ھاجر’’ رکھ دیا گیا۔
سعید الشھری پہلے ہی غایب ہوگیا تھا۔ سعودی عرب کے سیکیورٹی ادارے اسے تلاش کرنے میں مصروف تھے کہ سنہ 2010ء میں وفاء الشھری بھی خفیہ طورپر تینوں بچوں کے ہمراہ یمن میں اپنے شوہرکے پاس چلی گئی۔
ھیلہ القصیر اور مذہبی لیکچر:
سنہ 2010ء میں سعودی عرب کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک جھڑپ میں ہلاک ہونے والے اشتہاری کی بیوہ ھیلہ القصیر کو حراست میں لیا۔ ھیلہ کئی سال تک بریدہ شہر میں ایک مذہبی اسکول چلاتی رہی۔ مگر اس کے خلاف سعودی عرب میں پیش کردہ فرد جرم میں الزام عاید کیا گیا کہ اس نے یتیم بچوں کی کفالت اور مساجد کی تعمیر کی آڑ میں دو ملین ریال کی رقم جمع کر کے یمن میں القاعدہ جنگجوؤں کو ارسال کی۔ اس کے علاوہ وہ اپنے گھر پر 60 القاعدہ دہشت گردوں کو مختلف اوقات میں پناہ دینے اور انہیں تحفظ کرنے کی ذمہ دار ہے۔ ان الزامات کے تحت سعودی عرب کی عدالت نے ھیلہ القصیر کو 15 سال قید کی سزا کا حکم دیا۔
ھیلہ القصیر کا سعودی عرب میں شدت پسندی کے فروغ، القاعدہ کی دعوتی سرگرمیوں، مذہبی لیکچر، جامعات اور مساجد میں خواتین کو القاعدہ اور شدت پسندی کی طرف متوجہ کرنے میں کلیدی کردار رہا۔
سیکیورٹی فورسز کو مطلوب اور اشتہاری شدت پسندوں کی کم عمر بچیوں کو القاعدہ میں شامل کرنے کے لیے بھی ھیلہ القصیر نے مہم چلائی۔ ان کی مالی مدد کی کوشش کی گئی گرفتار کیے گئے ان کے قریبی رشتہ داروں کے بارے میں انہیں معلومات فراہم کرتی رہی۔ حتیٰ کہ بعض جنگجوؤں کی بیگمات کو اس نے یمن میں القاعدہ میں شمولیت اختیار کرنے پر بھی آمادہ کرنے کی کوشش کی۔
وفاء الشھری المعروفہ ام ھاجر الازدی کو یمن فرار کرانے میں بھی ھیلہ القصیر کا کردار تھا۔
جنگجو بنانے کے لیے بچے گود لینا:
سنہ 2013ء کے اوائل میں ارویٰ البغدادی نے اپنی سہیلی وفاء سے مائیکرو بلاگنگ ویب سائیٹ ‘ٹوئٹر’ پر رابطے کے بعد یمن بھاگنے اور القاعدہ میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس نے انٹرنیٹ کے ذریعے پیغام دیا کہ وہ ‘‘مجاھدین یمن’’ میں شامل ہونے کیلئے اپنی نومولود بچی اور بھائی انس کے ہمراہ یمن جا رہی ہے۔ انس ماضی میں سعودی عرب میں گرفتار بھی ہوا جب کہ اس کا ایک بھائی محمد مارا گیا گیا تھا۔ یمن جانے والوں میں مقتول محمد کی بیوہ مصری نژاد ایک خاتون تھی جس نے بعد ازاں اپنے شوہر کے بھائی انس سے شادی کر لی تھی۔
ارویٰ بغدادی میں شدت پسندی کے جراثیم خواتین کے ان اجتماعات میں شرکت کےباعث پیدا ہوئے افغانستان میں لڑائی میں شامل رہنے والے جنگجوؤں کی بیگمات تھیں۔ ان میں سے بعض خواتین نے قندھار میں اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ پر منعقد ہونے والے پروگرامات میں شرکت کی تھی جہاں بن لادن کی ایک بیوی اور بچے بھی موجود تھے۔ ارویٰ نے افغانستان اور عراق میں دوسری خواتین کے ہمراہ القاعدہ کے لیے چندہ بھی جمع کیا۔
ارویٰ کی شادی یاسین العمری نامی ایک جنگجو کے ساتھ ہو چکی تھی جو القاعدہ سے تعلق کےالزام میں گرفتار ہوا اور ابھی تک جیل میں قید ہے۔ ارویٰ کا ایک بھائی محمد عصام سنہ 2010ء میں وادی الدواسر کے مقام پر سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا تھا۔ اس کی ہلاکت اس وقت ہوئی جب وہ برقع اوڑھ کر ایک چیک پوسٹ سے گذرنے لگا۔ پولیس نے اسے چیکنگ کے لیے روکا مگر اس نے فائرنگ کر دی۔ جوابی فائرنگ میں وہ خود بھی مارا گیا۔
القاعدہ جنگجوؤں کی گرفتاری اور بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے نتیجے میں تنظیم کو افراد کی سخت قلت کا سامنا کرنا پڑا تو ارویٰ جیسی عورتوں نے بچے گود لے کرالقاعدہ کی دوسری نسل تیار کرنے کا ایک نیا پلان بنایا۔ بچوں کو گود لینے کے بعد ان کی تعلیم وتربیت تکفیری انداز میں کرنے اور شروع ہی سے ان میں جنگ وجدل کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرنے کی اسکیم تیار کی گئی