برطانوی لڑکی کی شام میں ہلاکت کا خدشہ
خیال رہے کہ 16 سالہ خدیجہ سلطانہ اپنی دو دوستوں 15 سالہ شمیمہ بیگم اور 15 سالہ عامرہ عباسی کے ہمراہ فروری 2015 میں لندن کے علاقے بیتھنل گرین سے استنبول کے لیے روانہ ہوئی تھیں جہاں سے آگے انھوں نے شام کا سفر کیا تھا۔
ان کے خاندان کے وکیل تسنیم آکونجی نےبتایا کہ انھیں چند روز قبل رقہ سے خدیجہ کی ہلاکت کی اطلاع موصول ہوئی تھی تاہم وہ کسی آزاد ذریعے اس کی تصدیق نہیں کر سکے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ دولت اسلامیہ کے حوالے سے خدیجہ جس طلسم کا شکار تھی وہ ٹوٹ چکا تھا اور وہ مایوس ہو کر واپس لوٹنا چاہتی تھیں لیکن وہ اس دہشت گرد گروپ کی جانب سے سخت سزا کے خوف کے باعث ایسا نہیں کر پائی۔
وکیل کا کہنا تھا کہ خدیجہ کا خاندان بہت بری صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔
’یہ جاننے سے زیادہ برا کچھ نہیں ہو سکتا کہ آپ کا کوئی دوست یا خاندان کا رکن مارا جائے، وہ ایک نوجوان لڑکی تھی جس کے اچھے مستقبل کی امید تھی، یہ خاندان کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ابتدا سے ہی اس بری خبر سے بچنے کی کوشش کی گئی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔
وکیل تسنیم آکونجی نے بتایا کہ خدیجہ نے واپس آنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
’جس ہفتے وہ واپسی کے بارے میں سوچ رہی تھی اسی دوران آسٹریا سے آنے والی ایک نوجوان لڑکی جس نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تھی کو سرِ عام مارے جانے کی اطلاع ملی، ، میرے خیال سے خدیجہ نے اسے برا شگون سمجھا اور یہ خطرہ نہیں لیا۔‘
شام جانے والی یہ تینوں لڑکیاں مشرقی لندن کے ایک سکول میں جی سی ایس ای کی طالبات تھیں۔ تاہم سکول کے پرنسپل کا کہنا تھا کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ یہ لڑکیاں سکول میں بنیاد پرست نظریات کی جانب مائل ہوئیں۔
برطانیہ جانے سے پہلے شمیمہ نے ٹوئٹر پر گلاسگو کی رہنے والی لڑکی اقصیٰ محمود سے رابطے میں تھیں جو 2013 میں گلاسگو سے ایک دولتِ اسلامیہ کے جنگجو سے شادی کرنے کے لیے شام گئی تھیں۔
یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تینوں لڑکیاں دولتِ اسلامیہ کے مضبوط گڑھ رقہ میں رہائش پذیر تھیں۔ گذشتہ برس جولائی میں ہی یہ اطلاع بھی موصول ہوئی تھی کہ تین میں سے دو لڑکیوں نے شادی کر لی ہے اور اب وہ اکھٹی نہیں رہتیں۔
یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اب تک برطانیہ کے 800 سے زائدنوجوان لڑکے اور لڑکیاں شام اور عراق میں جا کر دولتِ اسلامیہ اور دیگر جنگجو گروہوں میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔