ڈونلڈ ٹرمپ کا ملواکی میں پولیس فائرنگ کا دفاع
امریکی ریاست وسکانسن کے شہر ملواکی میں ہفتے کے روز پولیس نے سلول سمتھ نامی ایک 23 سالہ سیاہ فام شخص کو تعاقب کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں کئی دنوں تک احتجاج ہوتا رہا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ملواکی پولیس سے ملاقات کے بعد فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یا ہمیں قانون کو ماننا ہوگا یا پھر ہمارا کوئی ملک نہیں ہے۔‘
خیال رہے کہ امریکی ریاست وسکانسن کے شہر ملواکی میں پولیس کے خلاف ہونے والے ایک احتجاج کے دوران گولیاں بھی چلائی گئی تھیں۔
احتجاج کرنے والوں کا کہنا تھا کہ پولیس افریقی امریکیوں کے خلاف شدید طاقت کے استعمال کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے۔
شہر کے میئر ٹام بیرٹ نے کہا کہ سمتھ کے ہاتھ میں پستول تھا اور انھوں نے تنبیہ کے باوجود اسے نیچے نہیں پھینکا۔
اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ ’اس شخص نے پستول کو (پولیس اہلکار) کی جانب کیا جیسے کہ وہ گولی چلانے ہی والا ہو۔‘
’کس کو اس کے ساتھ مسلہ ہو سکتا ہے؟ یہ پولیس کا بیان ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ درست نہ ہو، لیکن اگر یہ درست ہے تو لوگوں کو ہنگامہ نہیں کرنا چاہیے۔‘
خیال رہے کہ پچھلے دو برس میں سیاہ فام برادری کے خلاف پولیس کے تشدد کے خلاف مختلف امریکی شہروں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پر کیے گئے ہیں۔
ملواکی پولیس نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ جب انھوں نے جلوس کو منتشر کرنے کی کوشش کی تو ان پر پتھر پھینکے گئے۔
ہفتے کی رات مظاہرین نے کاروں، عمارتوں اور ایک پیٹرول پمپ کو نذرِ آتش کر دیا۔ ایک پولیس اہلکار ہجوم کی جانب سے پھینکی جانے والی اینٹ سر پر لگنے سے زخمی ہو گیا۔
پولیس نے کہا کہ ہفتے کی سہ پہر پولیس نے جب سمتھ کی گاڑی کو روکا تو وہ کار سے نکل کر بھاگ گئے۔ پولیس کے مطابق سمتھ کو پہلے بھی کئی بار گرفتار کیا گیا تھا۔
میئر بیرٹ نے لوگوں سے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: ’ایک نوجوان گذشتہ روز زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس کے حالات جو بھی رہے ہوں، لیکن ان کے خاندان کو صدمہ پہنچا ہو گا۔‘