سعودی عدالت نے خاتون کو شادی سے روک دیا
ریاض(مانیٹرنگ ڈیسک) مذہب کی تعلیمات کو دیکھا جائے یا قانون و اخلاقیات کو، شادی کا حتمی فیصلہ بہرحال لڑکے اور لڑکی کا بنیادی حق ہے، مگر معروضی حقائق کچھ اور ہیں۔ جوان اولاد پر مرضی مسلط کرنے کا رواج ہمارے معاشرے کے والدین میں بھی بہت پایا جاتا ہے البتہ برادر ملک سعودی عرب میں تو والدین کی دھونس دیکھنے لائق ہے۔ اس بدقسمت خاتون کا ماجرا ہی دیکھ لیجئے جو گزشتہ سات سال سے ایک نوجوان سے شادی کی خواہاں تھی مگر والدین نے اجازت نہ دی، کیونکہ مبینہ طور پر لڑکا عود(ترک و عرب موسیقی میں استعمال ہونے والا ایک ساز) بجانے کا شوقین ہے۔ سات سال کے انتظار کے بعد معاملہ عدالت میں گیا لیکن اب عدالت نے بھی درخواست گزار خاتون سے کہہ دیا ہے کہ وہ ایک سازندے سے شادی نہیں کر سکتی۔
شادی کے لئے غیر موزوں قرار دیا گیا شخص ایک سکول میں پڑھاتا ہے جبکہ خاتون قسیم صوبے کے ایک بینک میں مینجر ہے۔ خاتون کے خاندان کواس رشتے پر اعتراض تھا کیونکہ انہیں کسی نے بتایا تھا کہ وہ جس شخص سے شادی کرنا چاہتی ہے وہ موسیقی سے شغف رکھتا ہے۔
خاتون اپنے والدین سے اختلاف کرتے ہوئے یہ معاملہ عدالت میں لے گئی لیکن عدالت نے بھی والدین کی رائے سے اتفاق کیا ہے کہ سازندہ اس کے ساتھ شادی کیلئے موزوں نہیں ہے۔ سات سال سے اسی جھگڑے کی وجہ سے یہ خاتون غیر شادی شدہ تھی لیکن اب بالآخر عدالت کی جانب سے بھی اس کے خلاف فیصلہ آگیا۔
عدالتی فیصلے پر خاتون کا کہنا ہے کہ اس کے لئے رشتہ بھیجنے والے شخص کی بات سننے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔ اُس کا مﺅقف ہے کہ وہ کسی قسم کا ساز نہیں بجاتا بلکہ گزشتہ کئی سال سے صرف ٹیچنگ کر رہا ہے، مگر اس کی بات نہیں سنی گئی۔ خاتون کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنا کیس سپریم کورٹ میں لے کر جائے گی اور اسے امید ہے کہ سپریم کورٹ سے اسے انصاف ملے گا۔