دنیا

ترکی میں شادی کی تقریب میں دھماکہ

غازی عنتاب شام کی سرحد سے 64 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یاد رہے کہ مئی میں اس شہر میں ایک خود کش بمبار نے دو پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا۔

ترک حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’دہشتگرد حملہ تھا‘ اور ممکنہ طور پر خودکش حملہ تھا۔

نائب وزیراعظم محمت سیمسک نے کہا ہے کہ یہ وحشیانہ حملہ تھا مگر ان کی حکومت حالات کا مقابلہ کرے گی اور اس سے نمٹ لے گی۔

خیال رہے کہ یہ دھماکہ ایک ایسی جگہ ہوا ہے جہاں بہت سی یونیورسٹیوں کے طالب علم رہائش پذیر ہیں۔

اب تک کسی بھی گروہ نے اس حملے کی ذمہداری قبول نہیں کی تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔

ترکی میں دولتِ اسلامیہ اور کرد جنگجوؤں کی جانب سے گذشتہ سال سے متواتر حملے کیے جارہے ہیں۔

آخری حملہ رواں برس جون میں استنبول کے ہوائی اڈے پر ہوا تھا جس میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

حال ہی میں شمالی شام میں جہادیوں کے قبضے سے منجیب سمیت ممتعدد علاقے واپس لیے گئے ہیں۔ اور اب شامی باغی جرابلس کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔

اس سے قبل ترکی نے کہا تھا کہ شام میں جاری جنگ کو ختم کرانے کے لیے وہ زیادہ موثر کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور صدر بشار الاسد کو عبوری طور پر تسلیم کرتے ہیں لیکن طویل مدتی رہنما کے طور پر نہیں۔

ترکی کی پالیسی میں تبدیلی کا اعلان ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ’بشار الاسد کا شام کے مستقبل میں کوئی کردار نہیں ہے‘۔

انھوں نے کہا ’ہمیں پسند ہو یا نہ ہو لیکن یہ یقیقت ہے کہ بشار الاسد کا موجودہ شام میں ایک اہم کردار ہے۔‘

ترکی کے وزیر اعظم نے کہا کہ ’اگلے چھ ماہ میں ترکی شام میں جنگ بند کرانے کے لیے زیادہ موثر کردار ادا کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شام کو لسانی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ شام میں سیاسی حل میں بشار الاسد، پی کے کے یا اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close