جمال خاشقجی قتل کیس، حقائق معلوم کئے بغیر سعودی عرب کو قصوروار ٹھہرانا ٹھیک نہیں، امریکی صدر
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ حقائق معلوم کیے بغیر سعودی عرب کو قصوروار ٹھرانا ٹھیک نہیں۔ امریکی خبر رساں ادارے ‘اے پی’ کو انٹرویو کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافی جمال خاشقجی کی پراسرار گمشدگی پر عالمی برادری کی جانب سے سعودی عرب کی مذمت پر تنقید کرتے ہوئے معاملے کا امریکی سپریم کورٹ میں حالیہ دنوں مقرر ہونے والے جج بریٹ کوانوف پر جنسی ہراساں کرنے کے الزامات سے موازنہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں سعودی عرب پر الزامات لگانے سے قبل حقیقت سامنے آنے کا انتظار کرنا چاہیے اور الزامات ثابت ہونے سے قبل کسی کو مورد الزام ٹھہرانا اچھی بات نہیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے اسی طرح کا معاملہ حال ہی میں جسٹس بریٹ کوانوف کے حوالے سے دیکھا حالانکہ میری نظر میں وہ ہر طرح سے معصوم تھے۔’
سعودی عرب کے دفاع میں امریکی صدر کے بیان کو کمزور کہا جارہا ہے جبکہ ان کے اس بیان نے ان کی اپنی ریپبلکن پارٹی کے رہنماؤں کے سعودی قیادت کے مخالف بیانات کو کمزور دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ٹیلی فونک گفتگو کی تھی، جس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے معاملے میں کسی بھی طرح کا کردار ادا کرنے کی نفی کی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے پیچھے ‘آوارہ قاتلوں’ کا ہاتھ ہے۔
خبر رساں ادارے کو انٹرویو کے دوران امریکی صدر نے اپنی اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا اپنا خیال ہے اور سعودی فرمانروا نے یہ الفاظ استعمال نہیں کیے۔
قبل ازیں ترکی کی ایک اعلیٰ عہدیدار نے ‘اے پی’ کو بتایا کہ معاملے کی تحقیقات کرنے والے تفتیش کاروں کو سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کو قتل کیے جانے کے شواہد ملے ہیں۔
امریکی سیکریٹری خارجہ کی ترکی آمد
دوسری جانب سعودی عرب کے دورے کے بعد امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو ترکی کے دارالحکومت انقرہ پہنچے، جہاں انہوں نے ترک صدر رجب طیب اردوان اور وزیر خارجہ سے الگ، الگ ملاقاتیں کیں۔
تاہم ان کی ان ملاقاتوں سے متعلق تاحال کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
خیال رہے کہ امریکا میں مقیم سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ 2 ہفتے سے لاپتہ ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ انہیں ترکی میں سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا ہے۔
سعودی عرب سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والے جمال خاشقجی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ تھے جبکہ ادارے نے بھی ان کی گمشدگی کی تصدیق کی تھی۔
صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔
سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔
سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر گزشتہ روز امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔