ریاض: سعودی عرب نے اپنے استنبول قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تصدیق کردی۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی اپنی ترک منگیتر سے شادی کے لیے 2 اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصلیٹ پہنچے تھے تاہم اس کے بعد وہ لاپتہ ہوگئے جس کے بعد صحافی کو قتل کیے جانے کی اطلاعات تھیں اور اس حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر سعودی عرب صحافی کے قتل میں ملوث ہے تو اسے اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
مقامی میڈیا کے مطابق سعودی پراسیکیوٹر کا کہناہےکہ دو اکتوبر کو جب خاشقجی قونصل خانے آئے تووہاں موجود افراد سے ان کی لڑائی ہوئی جس کانتیجہ خاشقجی کی موت کی صورت میں نکلا اور ان افراد نے موت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔
مقامی میڈیا کے مطابق خاشقجی سے لڑائی کاسبب نہیں بتایا گیا اور یہ بھی واضح نہیں کیاگیاکہ خاشقجی کی میت کہاں ہے۔ سعودی مملکت کی جانب سے صحافی کی موت پر افسوس کااظہار کیا گیا ہے جب کہ پراسیکیوٹر کا کہنا ہےکہ واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق واقعے کے بعد سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دو مشیروں سمیت 5 اہم شخصیات کوعہدوں سے برطرف کردیا گیاہے جن میں سعودی انٹیلی جنس کے نائب سربراہ بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ 18 سعودی شہریوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے تاہم ان پر الزامات کی نوعیت واضح نہیں کی گئی۔
انٹیلیجنس کی تشکیل نو کیلئے کمیٹی قائم
دوسری جانب سعودی فرماں روا شاہ سلمان نے انٹیلی جنس کی تشکیل نو کے لیے ولی عہد شہزادہ محمد کی سربراہی میں وزارتی کمیٹی قائم کردی ہےجو ایک ماہ میں رپورٹ دے گی۔
سعودی فرماں روا کا ترک صدر سے رابطہ
علاوہ ازیں اس معاملے پر سعودی فرماں روا اور ترک صدر کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں صحافی کی موت سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا جب ترکی نے واقعہ تحقیقات سے پوری دنیا کو آگاہ کرنے کا کہا ہے۔