دنیا

فرانس میں مساجد کی بندش پر تشویش

گذشتہ برس نومبر میں پیرس پر ہونے والے حملوں کے دو ہفتوں کے اندر اندر ملک میں نافد ہنگامی صورتِ حال کے تحت شہر کے شمال میں واقع الہدیٰ ایسوسی ایشن اور اس سے ملحق مسجد کو بند کر دیا گیا تھا۔

حکام کے مطابق اس ادارے کو بند کرنے کی وجہ اس کے اسلامی عسکریت پسند تنظیموں سے مبینہ روابط ہیں۔

اس مسجد میں نماز ادا کرنے والے محمد نامی ایک مقامی شخص کا کہنا ہے کہ یہ ایک عام سی مسجد ہے۔

ان کا کہنا تھا ’میں ایک باعمل مسلمان ہوں، میں ہمیشہ یہاں آتا تھا، میں نے یہاں کچھ بھی عجیب نہیں دیکھا۔ مسلمانوں کے مذہبی مقامات بند کر دینا ٹھیک نہیں ہے ۔‘

الہدیٰ ان 20 مساجد میں سے ایک ہے جنھیں قومی سلامتی کے نام پر بند کر دیا گیا ہے۔ فرانس میں 50 لاکھ کے قریب مسلمان آباد ہیں۔

کئی فرانسیسی مسلمانوں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیاں دولت اسلامیہ جیسی تنظیموں کا کام ہیں۔ تاہم انھیں اس بات پر اعتراض ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں مضبوط سیکیولر روایات، آزادی کے اصول، مساوات اور بھائی چارہ ہے، وہاں انھیں اپنی صفائیاں دینی پڑتی ہیں۔

فرینچ کونسل آف مسلم فیتھ کو فرانسیسی حکومت اور مسلمانوں کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہیں ایک ایسے ادارے کے قیام کے بارے میں منصوبہ بندی کر رہی ہے جو تمام اماموں کی جانچ پڑتال کرے گا اور ان مسجدوں کی بھی جن میں وہ امامت کرتے ہیں۔

کونسل کے صدر انور کبیبیچ کا کہنا تھا: ’اس کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ اماموں نے دینی تعلیم کہاں سے حاصل کی۔ اور یہ کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اس واضح اسلام کی تعلیم حاصل کریں جو برداشت اور فرانس کے اقدار کا احترام کرنا سکھاتا ہے۔‘

فرانس میں سینیٹ کی کمیٹی کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2500 مساجد میں سے 120 سلفی نظریے کی پیروکار ہیں اور سنی اسلام کی بنیاد پرست قسم کی تعلیم دے رہی ہیں۔

تاہم ایک دوسری تنظیم کولیکٹو اگینسٹ اسلاموفوبیا کے ڈائریکٹر ماروان محمد کا اصرار ہے کہ یہ اقدام جہادیوں کے خطرے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

ان کا کہنا تھا حکام کو لوگوں کا محض اس بنا پر پیچھا کرنا بند کرنا ہوگا کہ وہ مسلمان ہیں یا ان کی داڑھی ہے، یا وہ مذہبی ہیں۔ یہ کوئی خطرے کی علامت نہیں ہے، یہ تو محض مذہبی ہونے کی علامت ہے۔‘

سینیٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم سے کم 20 مساجد کو دوسرے ممالک سے امداد ملتی ہے۔ زیادہ تر امداد ترکی، الجیریا، مراکش، اور کسی حد تک سعودی عرب سے بھی آتی ہے۔ خدشہ یہ نہیں ہے کہ غیر ملکی امداد براہ راست تشدد کا باعث بنتی ہے لیکن ان مساجد اور یہاں عبادت گاہوں میں ماحول بہت سیاسی ہوتا ہے جن میں تشدد کو اسلام کے بنیادی جز کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔

اس لیے ایک نئی تنظیم کی ضرورت ہے جو اماموں کی منظوری دے اور فرانس میں اسلام کی نگرانی کرے۔

لیکن بعض لوگوں کا موقف ہے کہ سی ایف ایم سی (کونسل آف مسلم فیتھ) فرانسیسی حکومت کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے۔

ماروان محمد کا کہنا تھا: ’مالی ترسیلات اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے ہمارے سخت قوانین ہیں۔ اس لیے موجودہ قوانین کے تحت حکام رقوم کے کسی بھی مشتبہ تبادلے کے بارے میں تفتیش کر سکتے ہیں۔‘

مراکش نژاد فرانسیسی شخص کا کہنا تھا کہ اس کی نظر میں فرانس میں اسلاموفوبیا آئندہ برس ہونے والے صدارتی انتخابات کے پیشِ نظر بڑھتا جا رہا ہے۔

پیرس میں ہونے والے حملوں کے بعد فرانس میں پابندیوں کی ایک لہر اٹھی جس میں بعض ساحلوں پر برکینیز (نہانے کا لباس) پر پابندی شامل ہے۔ جس کئی لوگ اسلاموفوبیا کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

انور کبیبیچ کا کہنا تھا: ’ہم اپنے ساتھی فرانسیسی باشندوں سے کہتے ہیں کہ وہ ان (دہشت گردوں) کے ساتھ روابط بنانے سے گریز کریں، اسی طرح ہم فرانسیسی مسلمانوں سے بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنی سرگرمیوں پر غور کریں اور کسی بھی مسئلے کو شدید ہونے اور معامالات کو پیچیدہ ہونے سے بچائیں۔ ‘

اماموں کی بہتر تربیت کے علاوہ کونسل غور کر رہی ہیں کہ مساجد کی فنڈنگ فرانس کے اندر ہی کی جائے۔

سینیٹ کی رپورٹ کے مطابق 60 لاکھ یورو کی غیر ملکی امداد سے چلنے والے 20 مساجد کو اس نئی تنظیم کے ذریعے ملک کے اندر ہی مالی معاونت فراہم کی جا سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close