Featuredدنیا

جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب کے بیان سے مطمئن نہیں، ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ترکی میں سعودی عرب کے قونصل خانے کے اندر سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق مزید معلومات کی ضرورت ہے اور اس معاملے پر سعودی حکام سے بات کریں گے۔

خبر ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے کہا کہ امریکا کے جواب کے لیے سعودی صحافی کے قتل کے حوالے سے مزید جاننے کی ضرورت ہے اور اس معاملے پر کانگریس کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

نیواڈا میں انتخابی مہم کے دوران اپنے خطاب میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ جلد ہی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بات کریں گے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے کہا کہ ‘جب تک جواب نہیں آتا میں مطمئن نہیں ہوں، اس حوالے سے پابندیاں ممکن تھیں لیکن اسلحے کا معاہد ختم کرنا سعودی عرب سے زیادہ ہمارے لیے نقصان کا باعث ہے’۔

ٹرمپ نے کہا کہ یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ طاقت ور ولی عہد محمد بن سلمان صحافی کے قتل سے لاعلم ہوں۔

یاد رہے کہ دوروز قبل سعودی عرب نے جمال خاشقجی کی استنبول میں قائم قونصل خانے میں موت کا اعتراف کیا تھا جس کے بعد امریکی صدر سمیت کئی ممالک کی جانب سے سعودی عرب پر شدید تنقید کی گئی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ابتدائی بیان میں کہا تھا کہ وہ سعودی عرب کی وضاحت سے مطمئن ہیں تاہم گزشتہ روز اس کے برعکس بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس وضاحت سے مطمئن نہیں ہیں اور انہیں تاحال خاشقجی کی لاش کے حوالے سے کچھ نہیں معلوم کہ کہاں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم چاہتے ہیں اس بات کا پتہ چلے کہ لاش کہاں ہے اور کیا ہوا تھا اور میرے خیال میں ہم اس کے قریب ہیں’۔

یورپی یونین کا ردعمل

یورپی یونین نے صحافی جمال خاشقجی کی ترکی میں قتل کے حوالے سے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے سامنے آنے والی تفصیلات گہرے دکھ کا باعث ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے مکمل شفاف اور معتبر تفتیش کی ضرورت ہے۔

سعودی عرب کی جانب اس معاملے پر انٹیلی جنس عہدیداروں کو برطرف کرنے اور 18 مشتبہ افراد کو گرفتار کرکے ان سے تفتیش کے بیان پر بھی شدید تنقید کی جارہی ہے۔

ناقدین کا ماننا ہے کہ جمال خاشقجی کا قتل 33 سالہ طاقت ور ولی عہد محمد بن سلمان کے علم میں لائے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔

یورپی یونین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے جاری تفتیش سے صورت حال مزید واضح ہونی چاہیے اور ذمہ داروں کے خلاف مکمل کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل

انڈیپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکا اور یورپی یونین کی انسانی حقوق کی چار تنظیموں اور آزادی صحافت کی تنظیموں نے جمال خاشقجی کی گمشدگی اور قتل کے حوالے سے اقوام متحدہ سے تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، رپورٹر ود آوٹ بارڈرز اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے کہیں اس حوالے سے تفتیش شروع کردیں۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے ڈپٹی ایگزیکٹیو رابرٹ ماہونی کا ایک مشترکہ بیان میں کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی تفتیش سے اس بات کا تعین ہوگا کہ جمال خاشقجی کے قتل کا حکم کس نے دیا تھا اور منصوبہ بنانے والا کون تھا۔

جمال خاشقجی کا معاملہ

خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قنصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

سعودی حکام نے ترک ذرائع کے دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمال خاشقجی لاپتہ ہونے سے قبل قونصل خانے کی عمارت سے باہر جاچکے تھے۔

تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد ایک ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا کہ سعودی صحافی، شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ خاشقجی کی صحافت سعودی حکومت کے لیے بڑا خطرہ نہیں تھی لیکن ان کے خفیہ ایجنسی کے ساتھ تعلقات تھے جس کی وجہ سے انہیں بعض اہم معاملات سے متعلق علم تھا۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دھمکی آمیز بیان میں کہا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔

اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا۔

ترک اخبار کا لرزہ خیز انکشاف

ترک قدامت پسند اخبار ’ینی شفق‘ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے وائس ریکارڈنگ سنی ہے جس میں جمال خاشقجی کو تفتیش کے دوران تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے سنا جا سکتا ہے اور پہلے ان کی انگلی کاٹی گئی بعدازاں زندہ ہی ٹکڑوں میں تبدیل کردیا گیا۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 7 منٹ کے اندر جمال خاشقجی کی موت واقع ہوگئی، انہیں سعودی قونصلر کے دفتر کے برابر میں موجود لائبریری میں لایا گیا اور اسٹڈی ٹیبل پر لٹا کر کوئی بے ہوشی کا انجیکشن لگایا گیا جس کے بعد ان کی آوازیں بند ہوگئیں۔

ترک اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی جنرل سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ میں فرانزک شواہد کے ہیڈ صلاح محمد الطوبیغے نے مبینہ طور پر ان کے جسم کو ٹکڑوں میں تبدیل کرنا شروع کیا تھا۔

بعد ازاں سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے ‘قربانی کا کوئی بکرا’ ڈھونڈ ہی لیں گے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close