پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ سے دنیا ناخوش
آئی پی ایس او ایس پولنگ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق بیلجیئم اور فرانس میں ہر 10 میں سے 6 افراد سمجھتے ہیں کہ پناہ گزین دنیا بھر پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
اسی سے ملتے جلتے اعداد و شمار روس، ہنگری اور اٹلی میں بھی ریکارڈ کیے گئے۔ یہ تینوں ممالک مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے ہجرت کر کے آنے والے افراد کا مستقل سکونت اختیار کرنے کے لیے پہلا انتخاب ہیں۔
سروے کے دوران 46 فیصد آبادی نے خدشہ ظاہر کیا کہ پناہ گزین ان کے ملک پر ایسے اثرات مرتب کریں گے جنہیں وہ ناپسند کرتے ہیں۔
ان میں 10 میں سے 6 افراد نے خدشہ ظاہر کیا کہ پناہ گزینوں کے روپ میں دہشت گرد ان کے ملکوں میں داخل ہوسکتے ہیں جبکہ 4 نے مطالبہ کیا کہ ان کے ملک کی سرحدیں بند کر کے پناہ گزینوں کا داخلہ روک دیا جائے۔
سروے میں برطانوی افراد نے پناہ گزینوں کی آمد پر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ برطانیہ میں 2011 میں غیر ملکی افراد کی شرح 19 فیصد تھی جو اب بڑھ کر 35 فیصد ہوچکی ہے۔
سروے میں شامل ماہرین کے مطابق برطانویوں کا پناہ گزینوں کے حوالے سے مثبت خیالات کا اظہار ایک غیر متوقع اور خوش آئند عمل ہے۔
سروے کے سربراہ یویس برڈن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا پناہ گزینوں کے متعلق منفی انداز میں رپورٹنگ کر رہا ہے اور ان کی خراب صورتحال کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے جس کے باعث ان کے میزبان ممالک میں ان کے لیے ناپسندیدگی پیدا ہو رہی ہے۔
سروے ارجنٹائن، آسٹریلیا، بیلجیئم، برازیل، کینیڈا، فرانس، برطانیہ، جرمنی، بھارت، روس، امریکا، سعودی عرب اور ترکی سمیت کئی ممالک میں کیا گیا اور اس کے لیے 16 ہزار سے زائد افراد سے سوالات پوچھے گئے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطاق اس وقت دنیا بھر میں 60 ملین افراد اپنے گھروں سے زبردستی بے دخل کردیے گئے ہیں اور وہ پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ جنگ عظیم دوئم کے بعد پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔