جمال خاشقجی کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، اقوام متحدہ
اقوامِ متحدہ کی نمائندہ خاص نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کو ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنہوں نے یہ منصوبہ بندی کی تھی ’وہ ریاست کی نمائندگی کرنے والے اعلیٰ سطح کے افراد ہیں‘۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ سےگفتگو کرتے ہوئے ایگنیز کلیمرڈ کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہم جانتے ہیں اس سے ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ جمال خاشقجی ماورائے عدالت قتل کا شکار ہوئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے ہمیں یہ پتا چلا کہ ان کا قتل سعودی قونصل خانے میں کیا گیا، جس کے بعد یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ موقع واردات پر موجود افراد ریاست کے اعلیٰ عہدیدار تھے۔
بعدازاں کچھ روز گزرنے کے بعد سعودی حکام نے جمال خاشقجی کی گمشدگی اور مبینہ قتل میں ملوث افراد کو شناخت کرلیا جو اعلیٰ سطح کے عہدیدار تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام معاملات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ کہ ان کی گمشدگی اور قتل میں ماورائے عدالت قتل کے تمام تر شواہد موجود ہیں۔
ایگنیز کلیمرڈ کا کہنا تھا کہ ’اب اس معاملے کی غیر جانبدار اور مکمل تحقیقات سے ہی اس بات کا تعین ہوسکے گا کہ اس قتل کاحکم کس سطح سے آیا تھا، تاہم ہمارے پاس اتنے شواہد موجود ہیں جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ سعودی عرب ہی اس کا ذمہ دار اور اس میں ملوث ہے‘۔
مذکورہ معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں سعودی نمائندے فیصل فہد کا کہنا تھا کہ اگینز کلیمرڈ نے اپنے بیان میں حد سے تجاوز کیا‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میرا وفد نمائندہ خاص کے دیے گئے اس بیان کو مسترد کرتا ہے، ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ماورائے عدالت معاملات پر اپنے اختیارات سےتجاوز نہ کریں۔
سعودی مندوب کا مزید کہنا تھا کہ ’براہِ مہربانی آفیشل اجلاس میں ہمیں کسی قسم کی ذاتی آرا نہیں دیں گے‘۔
خیال رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر گزشتہ 3 ہفتوں سے ترک حکومت کے حمایت کرنے والے خبر رساں ادارے مبینہ ریکارڈنگز اور تحقیقات کے حوالے سے معلومات افشا کررہے ہیں۔
انہی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ صحافی کو سعودی عرب کے 15 رکنی ’ہٹ اسکواڈ‘ نے تشدد کے بعد قتل کیا۔
ایسی ہی ایک اخباری رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ قتل کے حوالے سے آڈیو ریکارڈنگ کے ثبوت ہیں جس کے بارے میں ترک حکام کا کہنا تھا کہ وہ ابھی تک کسی کو نہیں دیے گئے تاہم واشنگٹن پوسٹ کا کہنا تھا کہ ترک حکام نے مذکورہ آڈیو سی آئی اے ڈائریکٹر ’جینا ہیسپیل‘ کو سنوائی ہیں۔
اس سے قبل امریکی صدر سعودی عرب کی جانب سے دی جانے والی وضاحت پر نہ صرف مطمئن تھے بلکہ اس بیان کا دفاع بھی کررہے تھے لیکن بعد میں انہوں نے اسے معاملے کو ’حقائق چھپانے کی بدترین کوشش‘ قرار دیا۔
خیال رہے کہ سعودی حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں اس وقت قتل کردیا گیا تھا جب وہ شادی کے لیے ضروری دستاویزات لینے کے لیے قونصل خانے میں گئے تھے۔
مذکورہ معاملے پر پہلے سعودی عرب کا موقف یہ تھا کہ صحافی قونصل خانے سے واپس چلے گئے تھے لیکن بعد میں سخت عالمی دباؤ کے بعد انہوں نے اس بات کا اعتراف کرلیا تھا کہ جمال خاشقجی سفارت خانے میں ایک لڑائی کے دوران قتل ہوگئے۔
دوسری جانب ترک صدر طیب اردوان نے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ یہ قتل منصوبہ بندی سے کیا گیا تھا۔