سعودی عرب نے خاشقجی کے قتل کا مقدمہ ترکی میں چلانے کی درخواست مسترد کردی
ریاض: سعودی عرب نے استنبول کے سفارتخانے میں قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا مقدمہ ترکی میں چلانے کی ترک حکام کی درخواست مسترد کر دی۔ گزشتہ روز ترک حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 18 افراد کا ٹرائل ترکی میں ہو۔
بحرین میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے مغربی میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جمال خاشقجی سے متعلق کیس میں ہیجان انگیز رپورٹنگ کی گئی۔
عادل الجبیر نے کہا کہ جمال خاشقجی کے قتل کے ملوث افراد کا تعلق سعودی عرب سے ہے، انہیں سعودی عرب میں گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف مقدمہ بھی سعودی عرب میں ہی چلایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ خاشقجی کیس اعصابی تناؤ بن چکا ہے لیکن تحقیقات میں حقائق سامنے آ رہے ہیں۔
امریکا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات ناقابل تسخیر ہیں اور ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی معقول اور حقیقت پر مبنی ہے۔
دوسری جانب امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا کہ جمال خاشقجی کا سفارتی علاقے میں قتل سب سے کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔
جیمز میٹس نے کہا کہ امریکا جمال خاشقجی جیسے صحافی کو وحشیانہ طریقے سے قتل کر کے خاموش کرانے کے طریقے کو بالکل بھی برداشت نہیں کرتا۔
خیال رہے کہ جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی سفارتخانے سے مبینہ طور پر لاپتہ ہو گئے تھے لیکن ترک پولیس نے خدشہ ظاہر کیا کہ جمال خاشقجی کو سعودی قونصلیٹ میں قتل کر دیا گیا ہے۔
ترک حکومت اور بین الاقوامی دباؤ کے باعث سعودی عرب نے 20 اکتوبر کو جمال خاشقجی کے قتل کا اعتراف کیا اور پھر بعدازاں جمال خاشقجی کی باقیات سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے گھر کے گارڈن سے برآمد ہوئیں۔