شام میں جنگ بندی کے معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں
جنیوا میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی اپنے روسی ہم منصب سرگئی لورووف سے شام کے مسئلے پر بات چیت ہوئی اور بعد میں دونوں نے مشترکہ طور پر میڈیا سے بات کی
روسی وزیر خارجہ سرگئی لورووف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شام میں جنگ بندی کے معاملے پر امریکہ سے ایک معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں لیکن اب بھی چند مسائل کو حل کرنا باقی ہے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق تقریباً دس گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے میڈیا کو بتایا کہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لورووف اور انھیں شام میں جنگ بندی پر آگے بڑھنے کے راستے کا واضح اندازہ ہو گیا ہے لیکن اب بھی چند تفصیلات پر کام کرنا باقی ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ’ ہم ( معاہدے) کے قریب ہیں لیکن ہم اس وقت تک معاہدے میں جلدی نہیں کریں گے جب تک یہ شامی شہریوں کو ان کی ضروریات کے مطابق قابل اطمینان نہیں ہوتا۔‘
امریکی وزیر خارجہ کے مطابق شام میں جنگ بندی کی بحالی اور امدادی سامان کی زیادہ بہتر رسائی کے اقدام پر زیادہ تر تکنیکی بات چیت مکمل ہو چکی ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے ماہرین جنیوا میں ہی موجود رہیں گے تاکہ آنے والے دنوں میں حل طلب معاملات کو حل کر سکیں۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لورووف نے کہا ہے کہ ’اب بھی ہمیں چند معاملات کو حل کرنے کی ضرورت ہے جس میں القاعدہ سے منسلک النصرہ فرنٹ کے جنگجوؤں کی شمالی مشرق میں امریکی حمایت یافتہ جنگجوؤں کے درمیان تفریق کرنا ہے۔‘
انھوں نے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی شامی حکومت اور امریکہ کی حمایت یافتہ حزب مخالف کے درمیان مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کی مدد سے جو حالیہ مہینوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اسے کم کرنے میں مدد ملے گی۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لورووف نے شام کے مسئلے پر امریکہ سے تعلقات کی فضا میں بہتری کے حوالے سے کہا کہ’ ہم ان معاملات کو کم کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں اعتماد اور اتفاق رائے کی کمی ہے۔ باہمی اعتماد میں ہر ملاقات کے بعد اضافہ ہو رہا ہے۔‘
اس سے پہلے دونوں رہنماؤں کے درمیان شام کے مسئلے پر گذشتہ ماہ ماسکو میں ملاقات ہوئی تھی۔
شام کے چار برس سے محصور شہر داریا سے انخلا شروع
شام میں فریقین کے درمیان چار سالہ محاصرہ ختم کرنے پر اتقاق کے بعد داریا شہر سے شہریوں اور باغی جنگجوؤں کا انخلا شروع ہوگیا ہے۔
جب پھنسے ہزاروں شہریوں سے بھری پہلی بس درایا سے روانہ ہو ئی تو ایمبولنسیں اور ہلالِ احمر کی گاڑیاں اس کے ہمراہ تھیں۔
باغی جنگجو باغیوں کے زیر کنٹرول شہر ادلب جائیں گے جبکہ عام شہریوں کو حکومت کی طرف سے قائم کردہ امدادی کیمپوں میں لے جایا جائے گا۔
شام کی سکیورٹی فورسز نے سال 2012 میں درایا کا محاصرہ کیا تھا اس کے بعد سے شہر پر مسلسل بمباری کی جاتی رہی ہے جس کے باعث شہریوں کو خوراک، پانی اور بجلی کی قلت کا سامنا تھا۔
ان چار برسوں کو شہر میں محصور شہریوں کو رواں برس جون میں امدادی سامان کی فراہمی ممکن ہو سکی تھی۔