دنیا

خواجہ سراؤں کو یونیورسٹی ٹوائلٹ استعمال کرنے کی اجازت

گذشتہ مارچ میں ریاست میں ایک قانون منظور کیا گیا تھا جس کے تحت ٹرانس جینڈرز کے برتھ سرٹیفکٹ پر جو جنس درج ہے اسی مناسبت سے انھیں بیت الخلا استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

اس فیصلے کے بعد بعض کھلاڑیوں، تاجروں اور فنکاروں نے ریاست کا بائیکاٹ کیا تھا۔

امریکہ کے ڈسٹرک کورٹ جج تھامس شروڈر نے کہا کہ اس بارے میں جن تین درخواست گزاروں نے ریاستی اقدامات کو چیلنج کیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ریاستی قانون وفاقی قانون کے منافی ہے۔

انھوں نے اسی بنیاد پر عارضی طور پر یونیورسٹی میں ریاستی قانون کے نفاذ پر پابندی لگا دی۔

جج نے اس حقیقت کو پیش نظر رکھ کر یہ فیصلہ سنایا کہ یونیورسٹی آف کیرولائنا میں عام طور پر انفرادی طور پر استعمال کے لیے ٹوائلٹ مہیا نہیں ہوتے ہیں۔

اپنے فیصلے میں انھوں نے لکھا: ’خواجہ سراؤں کی جانب سے انفرادی درخواست گزاروں نے بہت واضح انداز میں یہ موقف پیش کیا ہے کہ اگر انھیں ابتدائی طور پر ریلیف نہ ملا تو انھیں ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔‘

جن تین افراد نے ریاستی قانون کو عدالت میں چیلنج کیا تھا ان میں ایک طالب علم جیکین کارسینو بھی تھے

ان کا کہنا تھا: ’آج، اس گھٹن سے جو میں اپنے سینے میں ہر روز محسوس کرتا تھا، تھوڑا سکون ملا ہے۔ لیکن لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ہم اس وقت تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے جب تک تفریق برتنے والا یہ قانون پست نہیں ہوجاتا۔‘

امریکہ کی کئی ریاستوں میں قانون سازوں نے اسی طرح کے قانون وضع کرنے کی بات کہی ہے۔

بعض افراد کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کو اپنا ٹوائلٹ استعمال کرنے کی اجازت دینے سے خواتین اور بچوں پر حملہ ہونے کا خطرہ ہے۔

ان کی دلیل یہ ہے کہ اس طرح کے شرر پسند عناصر اس کا بہانہ کر کے انھیں نشانہ بنا سکتے ہیں اور پھر وہ عدالت کے اس طرح کے احکامات کو اپنے دفاع کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close