بادشاہ اور شہزادہ قاتل ہی کیوں نا ہوں ہمارے لئے قابل احترام ہیں ، سعودی وزیر خارجہ
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے لیے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو جوابدہ ٹھہرا کر ہٹانے کا مطالبہ ایک ’سرخ لکیر‘ ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان یا ان کے والد فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے بارے میں کوئی بھی توہین آمیز گفتگو برداشت نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب میں ہماری قیادت اور حرمین شریفین کے متولی (شاہ سلمان) اور محمد بن سلمان ایک سرخ لکیر ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’فرماں روا اور ولی عہد ہر سعودی شہری کی نمائندگی کرتے ہیں اور ہر سعودی شہری ان کی نمائندگی کرتا ہے اور ہم ایسی کسی بھی چیز کو برداشت نہیں کریں گے جو ہمارے بادشاہ یا شہزادے کی توہین کرے‘۔
واضح رہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھنے والے امریکی رہائشی اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ناقد جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے تھے، جہاں انہیں قتل کرکے مبینہ طور پر ٹکڑے کردیے گئے۔
ابتدائی طور پر سعودی عرب کی جانب سے اس معاملے میں قتل سے متعلق انکار کیا جاتا رہا تاہم بعد میں سعودی حکام نے اعتراف کیا جمال خاشقجی کو قتل کردیا گیا جبکہ ان کے قتل کے شبے میں 21 افراد کو حراست میں بھی لے لیا گیا۔
تاہم امریکی میڈیا میں لیک ہونے والی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی تحقیقات میں مبینہ طور پر محمد بن سلمان کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔
اسی حوالے سے انٹرویو میں جواب دیتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ جمال خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان ملوث نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ قتل کے سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں اور ہم اس شخص کو سزا دیں گے جو اس میں ملوث ہوگا‘۔
اس موقع پر عادل الجبیر نے اس قتل کو انٹیلی جنس افسران کی جانب سے ’بددیانتی پر مبنی کارروائی‘ قرار دیتے ہوئے ترکی پر زور دیا کہ وہ قتل سے متعلق تمام ثبوتوں کے ساتھ آگے آئیں اور معلومات لیک ہونے سے روکیں۔
سعودی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ امریکا کی جانب سے سعودی عرب پر کوئی بھی ممکنہ پابندی قلیل مدتی ہوگی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حال ہی میں اپنے انٹرویو کے دوران تیل کی قیمتیں کم رکھنے پر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کی تعریف کی جبکہ ریاض کو جمال خاشقجی کے معاملے میں ’فری پاس‘ دینے سے متعلق تنقید کو نظر انداز کیا۔