صنعاء: جنگ سے تباہ حال یمن بچوں کی مقتل گاہ بن گیا ہے۔ ’سیو دی چلڈرن‘ نامی غیر سرکاری تنظیم کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سال کے دوران یمن میں صرف ’بھوک‘ اور ’بیماری‘ سے 85 ہزار بچے اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جن 85 ہزار بچوں نے زندگی کی بازی ہاری ہے ان کی عمریں پانچ سال سے بھی کم تھیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے فراہم کردہ ’اعداد و شمار‘ کو پیش نظر رکھتے ہوئے رپورٹ مرتب کرنے والے ’سیو دی چلڈرن‘ کا کہنا ہے کہ 14 ملین افراد قحط کا شکار ہیں اور ان کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق متاثرین کی تعداد میں اس وقت حیرت انگیز اضافہ دیکھنے میں آیا جب یمن کے راستے بند کر دیے گئے۔
سیو دی چلڈرن کی تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دستیاب اعداد و شمار ان ہزاروں بچوں کے علاوہ ہے جو خانہ جنگی کے دوران ہونے والی جھڑپوں و لڑائیوں میں مارے گئے ہیں۔ یمن میں گولیوں اور بموں کا نشانہ بن کر جان سے جانے والے ہر ایک بچے کے مقابلے میں درجنوں بچے بھوک و بیماری کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وہ بچے ہیں جن کی زندگیاں محفوظ بنائی جا سکتی ہیں۔ سیو دی چلڈرن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بھوک اور بیماری کا شکار ہونے والے بچوں کو موت سے قبل سخت اذیت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ یمن پہ ہونے والی بمباری اور کیے جانے والے میزائل حملوں سے اب تک تقریباً دس ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ یمن میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور شدید انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔ ادارے کے مطابق یمن میں اس وقت 80 لاکھ سے زائد افراد ’بھوک‘ کا شکار ہیں۔ عالمی ادارے کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق بھوک اورغذائی قلت کا سامنا کرنے والے افراد میں کم از کم 13 لاکھ بچے شامل ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہر دس منٹ بعد ایک بچہ بھوک کا نشانہ بن کر جان کی بازی ہار رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق غذائی قلت کے سبب بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما شدید متاثر ہورہی ہے۔