میر قاسم کو پھانسی دے دی گئی
میر قاسم علی کا شمار جماعت اسلامی کے اہم ترین رہنما کے طور پر ہوتا تھا اور وہ ایک معروف کاروباری شخصیت تھے۔
انھیں سنیچر کو دارالحکومت ڈھاکہ سے باہر موجود جیل میں پھانسی دی گئی جہاں سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔
بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے دو سال قبل انھیں سزائے موت سنائی تھی تاہم ان کی جانب سے سزائے موت کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔
گذشتہ روز جب حکام نے جماعت اسلامی کے رہنما میر قاسم علی سے صدر سے رحم کی اپیل کرنے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے انکار کر دیا تھا۔
ان پر یہ الزام تھا کہ انھوں نے سنہ 1971 کی جنگ کے دوران تشدد اور قتل کا ارتکاب کیا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمان نظامی پھانسی دی گئی تھی۔
بنگلہ دیش میں تحریک آزادی کے دوران جنگی جرائم کے مرتکب ہونے کے جرم میں اب تک چھ افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
بنگلہ دیشں میں موجودہ حکومت نے جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمات چلانے کے لیے خصوصی عدالت بنائی تھی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت جنگی جرائم کے ٹربیونل کو اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ بھی کہہ چکی ہے کہ اس عدالت کا طریقۂ کار بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔
میر قاسم علی کو ایک ایسے وقت میں پھانسی دی گئی ہے جب ملک میں اسلامی شدت پسندوں کی جانب سے متعدد حملے کیے جا چکے ہیں۔
رواں برس جون میں ہی پولیس نے 3000 افراد کے حراست میں لیے جانے کی تصدیق کی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ شدت پسندوں کی جانب سے اقلیتوں اور سیکیولر نظریات رکھنے والے افراد پر ہونے والے حملوں کو روکنے کی ایک کوشش ہے تاہم اپوزیشن اسے سیاسی انتقام کا نام دے رہی ہے۔