تارکین وطن کے کیمپ کے خلاف احتجاج
مظاہرین کا منصوبہ ہے کہ وہ ایک اہم شاہراہ کو بلاک کریں گے اور بندرگاہ کی طرف جانے والے راستے پر انسانی چین بنا کر رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔
کیلے کے اس کیمپ میں 7،000 ہزار سے بھی زیادہ پناہ گزین بہت ہی گندی حالت میں رہتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے تو برطانیہ پہنچنے کے لیے گاڑیوں میں کود جاتے ہیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس کیمپ کی وجہ سے شہر کی حالت ابتر ہوتی جارہی ہے اور بندرگاہ پر بھی اس سے افرا تفری پھیلتی ہے۔ مقامی افراد کا اس کیمپ کے خلاف یہ پہلا اتنا بڑا مظاہرہ ہوگا۔
کیلے شہر کی میئر ناطشہ بوشارٹ کا کہنا ہے کہ اب حالت ناقابل برداشت ہوچکی ہے اور وہ بھی اس مظاہرے میں شرکت کا ارادہ رکھتی ہیں۔
اس کیمپ میں مقیم زیادہ تر افراد کا تعلق مشرقی وسطی، افغانستان اور افریقہ سے ہے جو غیر قانونی طریقے سے یہاں پہنچے ہیں اور اب وہ کسی بھی صورت میں انگلش چینل پار کرنا چاہتے ہیں۔
چند ماہ پہلے ہی کی بات ہے اس کیمپ کو بند کرنے کی غرض سے حکام نے اس علاقے میں قائم بہت سی جھگیوں کو مسمار کر دیا تھا۔
فرانس کے وزیر داخلہ برنارڈ کیزنیوا نے اتوار کو کہا کہ حکومت کا اب بھی اس کیمپ کو بند کرنے کا ارادہ ہے۔
گذشتہ ہفتے ہی فرانس اور برطانیہ نے مشترکہ طور پر کیلے کی بندرگاہ کی سکیورٹی بہتر کرنے اور وہاں پر رہنے والے ہزاروں بے گھر افراد کی حالت کو بہتر بنانے کا عہد کیا تھا۔
اس میں کہا گیا تھا کہ جو افراد پناہ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں انھیں ان کے ملک واپس بھیجا جائے گا۔
چند روز پہلے ہی کارکنان نے کہا تھا کہ انھیں کیمپ سے تقریبا 400 سو ایسے بچے ملے ہیں جن کا دعوے دار کوئی بھی نہیں ہے اور وہ برطانیہ منتقل ہونے کے حقدارہیں۔
برطانیہ کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایسے 150 بچوں کو اسی برس رہائش مہیا کرے گا۔
کیمپ میں موجود ایک سوڈانی پناہ گزین نےبتایا کہ جس انداز سے مقامی لوگ انھیں دیکھتے ہیں اس سے وہ کافی دکھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام پناہ گزین جو متنازع علاقوں سے آنے کے بعد یہاں پر جمع ہوئے ہیں وہ اب بس وہ پر امن طریقے سے رہنا چاہتے ہیں۔