دوتیرتے، فلپائن کے ’ڈونلڈ ٹرمپ
اس سے گروپ آف 20 کا اجلاس پس منظر میں چلا گیا اور یہ فلپائن کے صدر کا غیرمعمولی بیان دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ بعد میں دوتیرے نے اپنے الفاظ پر ندامت کا اظہار کیا، تاہم صدر اوباما نے ان سے ملاقات منسوخ کرنے میں دیر نہیں لگائی۔
اس سے قبل دوتیرتے فلپائن میں امریکی سفیر فلپ گولڈبرگ کے خلاف بھی سخت زبان استعمال کر چکے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ امریکی سفیر ’فاحشہ ماں کے ہم جنس پرست بیٹے ہیں۔‘
صدر دوتیرتے نے یہ بات اس وقت کی جب فلپائن کا چین سے سمندری حدود کی ملکیت کے معاملے پر تنازع چل رہا ہے اور اسے امریکی حمایت کی سخت ضرورت ہے۔ اس سمندر میں سے ہر سال کھربوں ڈالر مالیت کا تجارتی مال گزرتا ہے۔
تاہم ایسا نہیں کہ دوتیرتے کا نشانہ صرف امریکی ہی ہوں۔ وہ پوپ کو بھی سخت سست کہہ چکے ہیں، حالانکہ فلپائن کے عوام کی اکثریت کیتھولک ہونے کے ناتے پوپ سے عقیدت رکھتی ہے۔
2015 میں جب پوپ فلپائن کے دورے پر آئے تو منیلا کا بدنامِ زمانہ ٹریفک مزید درہم برہم ہوگیا۔ دوتیرتے ایسا موقع ہاتھ سے کہاں جانے دیتے، وہ کہہ اٹھے: ’میں ٹریفک میں پانچ گھنٹے پھنسا رہا۔ میں نے پوچھا کون آ رہا ہے، انھوں نے کہا پوپ۔ میں نے کہا دوبارہ اس طرف کا رخ مت کرنا۔‘
اس سے قبل جب اقوامِ متحدہ نے کہا تھا کہ ماورائے عدالت قتل بین الاقوامی قانون کے تحت جرم کے زمرے میں آتے ہیں تو دوتیرتے نے مغلظات سے بھرپور تقریر کرتے ہوئے نہ صرف انسانی حقوق کے ماہرین کو ’احمق‘ کہا بلکہ فلپائن کو اقوامِ متحدہ سے نکالنے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔
البتہ بعد میں انھوں نے کہہ دیا کہ وہ مذاق کر رہے تھے۔
ایسا بھی نہیں دوتیرتے صرف اقتدار میں آنے کے بعد سے سخت گیر ہوئے ہیں۔ انھوں نے صدارتی مہم کے دوران ہی اپنے عزائم ظاہر کر دیے تھے: ’انسانی حقوق کے قوانین بھول جاؤ۔ اگر میں صدر بن گیا تو منشیات کا دھندا کرنے والو، سنبھل جاؤ، ورنہ میں تمھیں قتل کر دوں گا۔ میں تمھیں خلیجِ منیلا میں پھینک کر وہاں کی مچھلیوں کو موٹا ہونے کا موقع دوں گا۔‘
صدر دوتیرتے اس سال جولائی میں اقتدار میں آئے تھے۔ خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس کے بعد سے اب تک 2400 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں جن میں سے 900 سے زائد پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کے مقامی اداروں کے مطابق بقیہ ہلاکتیں ماورائے عدالت قتل اور خدائی خدمت گاروں کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔
دوتیرتے کو ’پہلے بولو، پھر تولو‘ اور متنازع بیانات کی وجہ سے فلپائن کا ڈونلڈ ٹرمپ بھی کہا جاتا ہے، تاہم وہ اس تقابل سے خوش نہیں ہیں اور کہہ چکے ہیں: ’وہ متعصب ہیں، میں نہیں ہوں۔‘