دنیا

روس: کھوجیوں نے نپولین کے گمشدہ خزانے کی کھوج شروع کردی

ماسکو: روس میں کھوجیوں نے نپولین کے گمشدہ خزانے کی کھوج لگانا شروع کردی ہے،میڈیارپورٹس کے مطابق روس میں یہ قصہ مشہور ہے کہ فرانسیسی شہنشاہ 1812 میں ماسکو سے پسپا ہوتے ہوئے اپنے ساتھ ایک خزانہ بھی لے گیا تھا۔اس خزانے کی تلاش میں بہت سے لوگ سرگرداں رہے ہیں تاہم اب ایک روسی تاریخ دان نے اس کے بارے میں ایک نئی تھیوری پیش کی ہے اور وہ یہ کہ نپولین نے مبینہ طور پر جو سونے سے بھری بوگیاں چرائی تھیں وہ اس مقام پر موجود نہیں جہاں انھیں تلاش کیا جاتا رہا ہے۔ویاچیسلاف ریزکوف نے بتایاکہ دو سو سال سے خزانہ ڈھونڈنے والے افراد غلط جگہ پر اسے ڈھونڈھ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ انھیں اپنی توجہ ردنیا نامی شہر پر مرکوز کرنی چاہیے جو کہ بیلاروس کی سرحد کے قریب واقع ہے۔آج تک اس کا نام و نشان نہیں ملا لیکن فلپ ڈے سیگر نے جو کہ نپولین کے عملے کا حصہ تھے، اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ خزانے کو سمولنسک خطے میں واقع سملیوو جھیل میں ڈبو دیا گیا تھا۔اس بات میں وزن تھا کیونکہ فرانسیسی فوج نے اس جگہ کے قریب ہی اپنا اسلحہ اور بارود چھوڑ دیا تھا۔ 1830 سے مختلف روسی حکام، ماہرینِ آثار قدیمہ اور خزانہ ڈھونڈنے والے اسے تلاش کرنے کی ناکام کوششیں کرتے رہے ہیں۔لیکن کچھ تاریخ دانوں کا کہنا تھا کہ جنرل سیگر کے بیان کا مقصد صرف خزانے کے اصلی مقام سے توجہ ہٹانا تھا، اور ان کے نزدیک خزانے کا ممکنہ مقام بیلاروس کے دریائے بیریزینا ہے۔

اس مقام پر 2012 میں فرانس اور بیلاروس کی مشترکہ مہم بھی بھیجی گئی جو کہ ناکام رہی۔ویاچیسلاف ریزکوف کی تھیوری نئے سال میں روس کے سرکاری میڈیا کی زینت بنی اور اس کی ایک وجہ اس مہم کے دوران پیش آنے والے واقعات کو رنگین طرز بیان میں پیش کیا جانا بھی تھا۔انہوں نے کہاکہ وہ سمجھتے ہیں کہ روسی جاسوسوں کو دھوکا دینے کے لیے نیپولین نے ایک فرضی قافلہ سملیوو جھیل کی جانب روانہ کیا تھا جبکہ شہنشاہ اور خزانہ جنوب کی جانب ردنیا اور اس کے قریب واقع بولشیا رتاوچ نامی جھیل کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔وہاں جھیل کے درمیان میں ایک راستہ بنوایا گیا جہاں تہہ میں انتہائی احتیاط سے سونے اور جواہرات کو سلٹ کے ڈھیر میں چھپا دیا گیا۔اپنی تھیوری کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ریزکوف جھیل میں راستے کی مقامی شہادتوں کا سہارا لیتے ہیں، جو 1812 کی بعد آہستہ آہستہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا اور ساتھ ہی 1898 میں جھیل کے پانی کے تجزیے کا بھی ذکر کرتے ہیں جس کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ اس میں غیر معمولی طور پر چاندی کے آئن کی کثیر مقدار موجود ہے۔

اخبار نویسوں نے ان کے اس مخصوص دعوے کو خصوصی تشہیر دی ہے کہ ’صحیح آلات اور ماہرین کی مدد سے جھیل کی تہہ سے خزانہ نکالا جا سکتا ہے۔لیکن سب اس دعوے سے مطمئن نہیں ہیں۔ خزانے کا کھوج لگانے کے ماہر ولادیمیر پوریویو روسی میڈیا میں نپولین کے خزانے کی معلومات کے متعلق جانی مانی شخصیت سمجھے جاتے ہیں، اور کافی عرصہ اس کی کھوج میں بھی رہے ہیں۔ انھوں نے اس تھیوری سے شدید اختلاف کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ ایک افسانہ ہے۔ صدیوں سے تاریخ دانوں نے نیپولین کی روسی مہم کی روزمرہ پیش رفت کو دستاویز میں محفوظ کیا ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنی فوج کو چھوڑ کر 400 گھوڑا گاڑیوں پر مشتمل سونا لدے قافلے کے ساتھ فرار ہو گئے ہوں۔جہاں تک جھیل کے راستے کا سوال ہے ، پوریووو اسے بھی ماننے سے قاصر ہیں۔

خزاں کے آخری انتہائی سرد دور میں فرانسیسی فوجیوں کو اتنا زبردست ڈیم بنانے میں محض کچھ دن لگے، پھر انہوں نے زیر آب ایک خزانے کے لیے تہہ خانا بھی بنایا؟ کیا ان کے پاس زیر آب جانے کے آلات تھے؟ یہ خالص افسانہ ہے۔ولادیمیر پوریویو نے ریزکوف سے کہا کب وہ ٹھوس دستاویزی ثبوت دیں گے جو ان کی تھیوری کو ثابت کرے، وہ ثبوت جو چاندی کے آئن کی مقدار سے بڑھ کر ہو، اس مقدار کی وجہ جھیل میں موجود مٹی کی قدرتی حالت بھی ہو سکتی ہے۔ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ بولشیا روتاوچ سمیت اسی نظام میں موجود پانچ اور جھیلوں کو 1975 سے خصوصی ماحولیاتی تحفظ میسر ہے۔ یہاں نہ ہی کشتیاں چلائی جاتی ہیں اور نہ مچھلیاں پکڑنے کی اجازت ہے لہٰذا جھیل کی کھدائی بہت بڑی ہلچل پیدا کر سکتی ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close