کابل: افغانستان کے صدر اشرف غنی کے خصوصی ایلچی عمر داودزئی نے کہا ہے کہ طالبان سے امریکا کے براہ راست مذاکرات افغان حکومت کی مرضی اور اجازت سے ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں نئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اور ایسے حالات میں پاکستان کے ساتھ ایشوز پر بات کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے سے بات چیت کے دورا انہوں نے کہا کہ دوحہ میں کوئی اجلاس ہونا ہی نہیں تھا۔ دوحہ میں اس اجلاس کے بارے میں نہ ہمیں پتا تھا اور نہ ہی امریکا کو پتا تھا۔ طالبان نے خود میڈیا کو بتایا تھا کہ منگل کو کوئی اجلاس ہے۔
عمر داودزئی کے مطابق امریکا نے طالبان سے براہِ راست مذاکرات شروع کرنے سے پہلے افغان حکومت سے اجازت لی تھی اور تمام ملاقاتوں میں نہ صرف افغان حکومت بلکہ افغان سیاستدانوں کو بھی اس حوالے سے مطلع کیا تھا۔ عمر داودزئی نے کہاکہ ایک سال پہلے امریکا نے نہ صرف افغان حکومت بلکہ افغان سیاستدانوں سے بھی مشورہ کیا تھا کہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کیے جائیں یا نہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ طالبان افغان حکومت سے کیوں مذاکرات نہیں کرنا چاہتے، عمر داودزئی کا کہنا تھا کہ طالبان کی ایک عرصے سے یہ خواہش تھی کہ پہلے امریکا سے بات چیت کرلیں اور بعد میں افغان حکومت کے ساتھ بیٹھیں گے۔ اْن کے مطابق ابھی تک جب امریکا اور طالبان کے درمیان کوئی حتمی بات نہیں ہوئی ہے، اس لیے طالبان افغان حکومت سے ملنے سے انکار کر رہے ہیں۔ تاہم افغان صدر کے خصوصی ایلچی نے اس بات پر زور دیا کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ بیٹھیں گے اور بات چیت بھی کریں گے۔