ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے بعد ٹرمپ کو عدالتی کارروائی کا سامنا
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے اعلان کے بعد پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے اور انہیں اپنے فیصلے پر عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ ان کی انتظامیہ اس مقدمے کا سپریم کورٹ میں کامیابی سے دفاع کر لے گی۔وائٹ ہاؤس کی جانب سے پریس ریلیز میں امریکی صدر کی جانب سے جنوبی سرحد پر ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے ایک گھنٹے بعد ہی امریکی سول لبرٹیز یونین نے اس فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا تھا۔اس اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جنوبی سرحد پر بارڈر سیکیورٹی اور انسانی بحران کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر نیشنل سیکیورٹی کو خطرہ ہے جس کی وجہ سے ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
اس فیصلے کے بعد غیرمنافع بخش امریکی واچ ڈاگ گروپ امریکی سول لبرٹیز یونین سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے ڈسٹرکٹ کولمبیا کی عدالت میں مقدمہ درج کراتے ہوئے اس اعلامیے کو معطل کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی محکمہ دفاع کو اس اعلامیے سے باز رکھے اور دیوار کی تعمیر کے لیے مختص رقم کہیں اور خرچ نہ کی جائے۔ایوان کے اسپیکر نینسی پلوسی اور دیگر ڈپلومیٹک ریاستوں کے اٹارنی جنرلز پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ بھی اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔اس نئی قانونی جنگ سے دو معاملات کے التوا میں جانے کا امکان ہے۔
پہلی تو یہ کہ کیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے قومی ایمرجنسی نافذ کر سکتے ہیں جبکہ کانگریس نے اس کام کے لیے مطلوبہ رقم جاری کرنے سے انکار کردیا ہو اور کیا ٹرمپ وفاقی قانون کے تحت ایمرجنسی لگا سکتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنے بیان میں بھی کہا تھا؟۔ کیا محکمہ دفاع دیوار کی تعمیر کے لیے فوج کے تعمیراتی منصوبوں کے لیے کانگریس کی جانب سے منظور شدہ رقم سے تعمیر کی جائے گی؟ پینٹاگون نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ اس سے کن منصوبوں پر اثر پڑے گا۔البتہ کئی ہفتوں تک اس معاملے پر گفت و شنید کے بعد جب صدر نے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا تو اب انہیں عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے اقدام کے لیے نیشنل ایمرجنسی ایکٹ 1976 پر انحصار کیا جسے کانگریس نے اپنایا تھا تاکہ صدر کی جانب سے نیشنل ایمرجنسی کے استعمال پر حد لگائی جا سکے۔اس ایکٹ کے تحت صدر پر یہ لازم ہے کہ وہ عوامی سطح پر کانگریس کو نیشنل ایمرجنسی کے حوالے سے مطلع کرے اور ہر چھ ماہ بعد رپورٹ کرے۔ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ صدر کانگریس کو نوٹس بھیج کر ہر سال اس کی تجدید بھی کر سکتے ہیں۔ ایوان اور سینیٹ ایمرجنسی کے اعلامیے کو ووٹنگ کے ذریعے کالعدم قرار دے سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں کم از کم دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ صدر ٹرمپ کو عدالتی جنگ میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اعدادوشمار ان کے اس فیصلے کے خلاف جاتے ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران غیرقانونی طور پر سرحد عبور کرنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے جبکہ ٹرمہ کی جانب سے گزشتہ سال معاہدے کا خاتمہ بھی ایک وجہ ہے جس سے بارڈر سیکیورٹی کے لیے 104ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔یاد رہے کہ چند دن قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کی خاطر کانگریس کی رکاوٹ کو ختم کرنے کے لیے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے 8 ارب ڈالر کے بل منظوری اور کانگریس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اختیارات استعمال کرنے کے لیے ایمرجنسی نافذ کریں گے۔