دنیا

سعودی عرب پر مقدمے کا بل، صدر اوباما کا ویٹو مسترد

صدر اوباما کے آٹھ سالہ دور حکومت میں یہ پہلا موقع ہے جب ان کے ویٹو کو پارلیمنٹ نے بائی پاس کیا ہے۔

براک اوباما نے کہا ہے کہ ایک بل پر ان کے ویٹو کو خارج کرکے پارلیمنٹ کے فیصلے نے ایک خطرناک مثال قائم کی ہے۔

اوباما نے اس بل پر ویٹو کیا تھا جس کے مطابق 11 ستمبر کے حملوں کے متاثرین کے خاندانوں کو اختیار ملا تھا کہ وہ سعودی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کر سکتے ہیں۔

امریکہ کی سینیٹ میں صدر کے ویٹو کو مسترد کرنے کے حق میں 97 ووٹ پڑے جبکہ ویٹو کے حق میں صرف ایک ہی ووٹ پڑا۔

’دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف انصاف‘ ایکٹ (جاسٹا) کی منظوری کے خلاف امریکی صدر نے بہت کوشش کی تھی۔

اوباما نے رپبلکن اور ڈیموکریٹک سینیٹ رہنماؤں کو بھیجے گئے خط میں کہا تھا کہ قانون کے طور پر جاسٹا لاگو کرنا امریکہ کے قومی مفادات کے لیے نقصان دہ ہو گا۔

اوباما نے کہا کہ اس بل کو منظور کرنے کے پارلیمنٹ کے فیصلے سے صدر کی خودمختاری کے حق کا تصور ختم ہو جائے گا۔

صدر اوباما نے بل کو ویٹو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون سے سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات متاثر ہوں گے اور انھوں نے خبردار کیا تھا کہ افغانستان اور عراق جیسے ممالک میں امریکی افراد کو بھی ایسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ یہ رائے شماری گذشتہ کئی دہائیوں میں ’امریکی سینیٹ کا وہ واحد اقدام ہے جس سے بہت پشیمانی ہو رہی ہے۔‘

ڈیموکریٹک پارٹی کے ایم پی چک سكمر نے کہا ہے کہ ’یہ اہم ہے کہ متاثرین کے اہل خانہ کو انصاف حاصل کرنے کی اجازت مل سکے، حتیٰ کہ اس کی وجہ سے سفارتی مشکلات ہوتی ہوں۔‘

اوباما نے اپنے دورِ صدارت میں 12 بار ویٹو کا استعمال کیا ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے جب ان کی ویٹو طاقت کو غیر اہم قرار دیا گیا۔

واضح رہے کہ ڈیموکریٹ جماعت کی جانب سے صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن اس بل کی حمایت کرتی ہیں۔ اور سینیٹ میں کئی ڈیموکریٹ سینیٹرز نے براک اوباما کے خلاف جاتے ہوئے اس بل کے حق میں ووٹ دیا۔

امریکہ کا اتحادی ملک سعودی عرب 11 ستمبر 2000 میں امریکہ پر ہونے والے حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کرتا ہے۔

سعودی عرب نے دھمکی دی تھی کہ اگر یہ ایسا قانون بنایا گیا تو وہ امریکی بونڈ بیچ دے گا یعنی کہ اربوں ڈالر امریکی معیشت سے نکال لے گا لیکن سینیٹرز کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی یہ دھمکی محض الفاظ کی حد تک ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close