امریکہ کا شام کے معاملے پر روس کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کا اعلان
پیر کے روز امریکی محکمۂ خارجہ کا کہنا تھا کہ روس شامی حکومت کے جنگ بندی کے معاہدے پر عمل کرنے کو یقینی بنانے میں ناکام رہا ہے۔
امریکہ نے روس اور شام پر امدادی کارکنوں اور ہسپتالوں پر حملوں میں تیزی لانے اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔
دوسری جانب روسی وزارت خارجہ نے امریکی فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزارت خارجہ کی ترجمان کا کہنا ہے کہ ’امریکہ معاہدے کی شرائط کو پورا کرنے میں ناکام ہونے کے بعد خود پر سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
محکمۂ خارجہ کے ترجمان جان کربی روس اور اس کے اتحادی ملک شام پر عام شہریوں کو نشانہ بنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ فیصلہ آسان نہیں تھا۔‘
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جاش ایرنیسٹ نے اس حوالے سے کہا کہ ’روس کو لے کر سب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔‘
جاش ایرنیسٹ نے کہا کہ ’جو چیز واضح ہے وہ یہ ہے کہ شام میں ایک معاہدے کے ذریعے تشدد کو کم کرنے کی کوشش کرنے کے بعد امریکہ اور روس کے درمیان بات کرنے کو اب کچھ نہیں رہا ہے۔‘
جان کربی نے بتایا کہ امریکہ اپنے اہلکاروں کو جینیوا سے واپس بلا رہا ہے جنھیں روسی اہلکاروں کے ساتھ مربوط حملوں کے لیے منصوبہ بندی کے حوالے سے ’مشترکہ نافذ العمل سینٹر‘ کے قیام کے لیے بھیجا گیا تھا۔
خیال رہے کہ شام میں گذشتہ ماہ 12 ستمبر کو پانچ سال سے جاری خانہ جنگی کو کم کرنے کے لیے جنگ بندی کا آغاز کیا گیا تھا جو ایک ہفتے میں ختم ہوگئی تھی۔
دوسری جانب روس نے امریکہ کے ساتھ جوہری ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے اضافی پلوٹونیم کو تلف کرنے کا معاہدہ معطل کر دیا ہے۔
روس کی جانب سے حالیہ قدم دونوں ممالک کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات کی جانب ایک اور واضح اشارہ ہے۔
روسی صدر ولادی میر پوتن کی جانب سے جاری ہونے والے حکمنامے میں امریکہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ غیر دوستانہ اقدامات کے تحت روس کے’سٹریٹیجک استحکام کے لیے خطرہ’ پیدا کر رہا ہے۔
روس نے امریکہ کے ساتھ اس معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے پیشگی شرائط بھی رکھی ہیں۔
معطل کیے جانے والے معاہدے کے تحت ہر ملک نے 34 ٹن اضافی پلوٹونیم کو ری ایکٹرز میں تلف کر دینا تھا۔