واشنگٹن: امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے نئی دہلی کی جانب سے پاکستان کے خلاف ایف 16 طیارے کے استعمال کی شکایت پر کوئی پوزیشن لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دوطرفہ معاہدے پر عوام کو رائے دینے کی پیشکش نہیں کریں گے۔ واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے یہ شکایت کی گئی تھی کہ پاکستان نے فضائی لڑائی میں ایف 16 طیاروں کو استعمال کیا۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے نائب ترجمان رابرٹ پالاڈینو کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ان رپورٹس کو دیکھا ہے اور ہم اس معاملے کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں، وہ کسی بات کی تصدیق نہیں کرتے لیکن پالیسی کے معاملے میں وہ امریکی دفاعی ٹیکنالوجی سمیت دوطرفہ معاہدوں کے مندرجات پر عام طور پر تبصرہ نہیں کرتے‘۔
ایک پریس بریفنگ کے دوران ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا اس طرح کے معاملات میں دیگر ممالک کے ساتھ بات چیت پر عوامی مباحثے سے بھی گریز کرتا ہے، ’لہٰذا ہم اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے ہماری نگرانی جاری رہے گی لیکن ابھی میں اسے چھوڑ کر جارہا ہوں‘۔مریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی صحافی ماریہ ابی حبیب نے انکشاف کیا کہ بھارت کے اصرار کے برعکس پاکستان کی جانب سے امریکا کے ساتھ ایف۔16 کی فروخت کے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی یہاں تک کہ اگر وہ گزشتہ ہفتے بھارتی طیارے کو گرانے میں امریکی ساختہ لڑاکا طیاروں کا استعمال بھی کرتا۔
خیال رہے کہ 27 فروری کو پاکستان نے بھارتی جارحیت کے جواب میں اپنی صلاحیت منوانے کے لیے مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں بھارتی اہداف کو لاک کیا اور کچھ فاصلے پر انہیں نشانہ بنایا جبکہ بعد ازاں پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے 2 بھارتی طیاروں کو مار گرایا۔بھارتی حکام کی جانب سے اس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے بھارتی فوجی اہداف کے ساتھ انگیج کیا جبکہ ساتھ ہی یہ شکایت بھی کی گئی تھی کہ مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کے لیے استعمال ہونے والے پاکستانی طیاروں میں ایف۔16 بھی شامل تھا۔بھارتی ایئرفورس کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے ایف۔16 کو گرایا اور اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے اے آئی ایم۔120 میزائل کی باقیات پیش کیں۔نئی دہلی اس بات پر زور دے رہا تھا کہ پاکستان کی جانب سے بھارت کے خلاف ایف۔16 طیارے استعمال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام آباد نے امریکا کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کی، جو مبینہ طور پر لڑاکا طیاروں کو صرف انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال کرنے تک محدود کرتا ہے۔
تاہم نیویارک ٹائمز کی جنوبی ایشیا نمائندہ ماریہ ابی حبیب نے مختلف ٹوئٹس میں واضح کیا کہ پاکستان کسی طرح امریکا کے ساتھ فروخت کے معاہدے کی خلاف ورزی کا مجاز نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ اگر اس نے بھارتی طیاروں کو گرانے کے لیے ایف۔16 کا استعمال بھی کیا ہو تو۔ماریہ ابی حبیب نے ٹوئٹ کی کہ ‘امریکا کہتا ہے کہ اگر بھارتی مگ کو گرانے کے لیے پاکستان ایف۔16 کا استعمال کرتا تو یہ فروخت معاہدے کی خلاف ورزی نہیں’۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘وہ کہتے ہیں کہ اگر بھارت دوسرے روز پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف وزری کرتے ہوئے داخل ہوا اور پاکستان نے اپنے دفاع میں طیاروں کو استعمال کیا تو معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوئی لیکن اگر پاکستان نے حملے کے لیے پہلے ایف۔16 کا استعمال کیا تو معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی’۔اسی طرح ماریہ ابی حبیب نے اسلحہ ماہرین اور حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بھارتی ایئرفورس کے اس دعوے پر بھی سوال اٹھائے، جس میں انہوں نے نئی دہلی میں بطور ثبوت اے آئی ایم۔120 میزائل کو دکھایا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان نے اسے ایف۔16 سے استعمال کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی حکام کے پاس ابھی تک بھارتی ایئرفورس کے اس دعوے پر یقین کرنے کے لیے کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ بھارت نے ایف۔16 کو گرایا تھا۔خاتون صحافی نے مزید لکھا کہ امریکا کی جانب سے گزشتہ ہفتے کے بھارتی مو?قف کے ساتھ محتاط رہنے کے باوجود بھارت کے ساتھ نیا لگاؤ ‘کافی دلچسپ ہے’۔اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں بریفنگ کے دوران رابرٹ پالاڈینو کا کہنا تھا کہ امریکا تاحال ’اعلیٰ سطح‘ پر معاملے سے جڑا ہوا ہے لیکن ’خاموش‘ سفارتکاری جنوبی ایشائی جوہری پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرسکتی ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم دونوں ممالک پر یہ زور جاری رکھیں گے کہ وہ صورتحال میں براہ راست بات چیت کے ذریعے کشیدگی کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھاتے رہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ مزید فوجی سرگرمیاں صورتحال کو مزید خراب کردے گی‘۔اس موقع پر انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ گزشتہ ہفتے سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے ’کشیدگی کو کم کرنے‘ میں براہ راست اس وقت ’اہم کردار‘ ادا کیا تھا جب انہوں نے دونوں ممالک میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج، قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بات کی تھی۔