مشرقی حلب کو آئندہ دو ماہ میں مکمل تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
سٹیفن ڈی مستورا نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کو خود ذاتی طور پر شہر سے باہر لے جانے کے لیے تیار ہیں اگر اس سے لڑائی رکتی ہے۔
انھوں نے شامی حکومت اور روس سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ شدت پسندوں کو نکالنے کے لیے شہر کو تباہ نہ کریں۔
فوجیوں نے گذشتہ ایک ماہ سے مغربی علاقے کا محاصرہ کیا ہوا ہے جہاں دو لاکھ 75 ہزار افراد آباد ہیں۔
جینیوا میں نیوز کانفرنس میں سٹیفن ڈی مستورا نے کہا ہے کہ ’اہم بات یہ ہے کہ اگر اسی رفتار سے بمباری جاری رہی تو زیادہ سے زیادہ دو یا ڈھائی ماہ میں مشرقی شہر حلب مکمن ہے کہ مکمل طور پر تباہ ہوجائے
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’شام کے ہزاروں عام شہری جو کہ دہشت گرد نہیں ہیں مارے جائیں گے اور بہت سے زخمی ہو جائیں گے۔‘
اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نے کہا کہ ’یہ سب آپ، ہم اور پوری دنیا اس وقت دیکھی گی جب ہم کرسمس یا اختتام سال کی خوشیاں منا رہے ہوں گے اگر یہ اسی طرح جاری رہا۔
روس اور شام کا کہنا ہے کہ ان کی فورسز طاقتور شدت پسند تنظیم جباہت فتح الشام کو نشانہ بنا رہی ہیں جوکہ جولائی میں القاعدہ سے الگ ہونے تک النصرہ فرنٹ کے نام سے جانی جاتی تھی۔
سٹیفن ڈی مستورا نے یہ بھی کہا کہ مشرقی شہر حلب میں تقریباً نو سو سے آٹھ ہزار جنگجو جباہت فتح الشام کے ارکان ہیں اور وہ انھوں خود شہر سے باہر لے جانے کے لیے تیار ہیں اگر وہ شہر کو چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ حلب کا مشرقی علاقہ گذشتہ ماہ امریکہ اور روس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے ختم ہونے کے بعد سے شدید بمباری کی زد میں ہے۔