سعودی عرب کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے خفیہ لائسنس جاری کئے گئے، امریکی حکومت کا اعتراف
واشنگٹن: امریکی وزیر توانائی ریک پیری نے سینیٹ کی آرمڈ فورسز کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے جنوری 2017ء سے اب تک ایٹمی ٹیکنالوجی کی فروخت کے 37 لائسنس جاری کئے ہیں جن میں سے 9 مشرق وسطی کے ممالک کے لئے ہیں۔ ان 9 لائسنسز میں سے 6 سعودی عرب اور 2 اردن کے لئے ہیں۔ اس دوران امریکی سینیٹر ٹم کین کے اس سوال پر کہ یہ لائسنس سعودی صحافی جمال خاشگی کے قتل سے پہلے سعودی عرب کو جاری کئے گئے تھے یا بعد میں، ریک پیری نے کہا کہ وہ لائسنسز کے اجراء کی تاریخ نہیں جانتے۔ جلسے کے دوران ایک اور سینیٹر الزبتھ وارین نے کہا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سعودی صحافی جمال خاشگی کے قتل میں اہم کردار کے لحاظ سے سعودی عرب کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی یا حتی اس پر غور کرنا بھی ایک برا اقدام ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکی حکومت نے سعودی عرب کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی فروخت کے لئے جاری کئے گئے لائسنسز اور دو ایٹمی ری ایکٹرز کی ساخت کو خفیہ رکھا ہوا تھا۔ اس قسم کے ایٹمی معاہدوں جن کو "سیکشن 810 معاہدات” بھی کہا جاتا ہے کی رو سے تعمیراتی کمپنیوں کو اجازت ہے کہ وہ ایٹمی گھر کی تعمیر کے کسی بھی معاہدے پر دستخط ہونے سے قبل بھی ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لئے اپنی سرگرمیاں شروع کر سکتی ہیں۔ اس حوالے سے امریکی وزیر توانائی ریک پیری نے ان لائسنسز کو خفیہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ یہ پراجیکٹس امریکی کمپنیوں کے ذریعے انجام پائیں گے اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کے متعلق معلومات منتشر نہ کی جائیں۔
کچھ عرصہ قبل بھی امریکی کانگریس کے رکن بریڈ شرمن نے صدر ٹرمپ کی حکومت پر سعودی عرب کے ساتھ انجام پانے والے مذاکرات کو خفیہ رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے لائسنسز جاری کرتے ہوئے عام اعلان کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل بھی امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیو نے کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے کہا تھا کہ ان کی حکومت کوشش کر رہی ہے جو ایٹمی ٹیکنالوجی سعودی عرب کو دی جائے (ایٹمی اسلحے کی تیاری کے) خطرے سے خالی ہو۔ بریڈ شرمن نے مطالبہ تھا کہ سعودی عرب کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی فراہمی کے لائسنسز عوام کے سامنے یا کم از کم کانگریس کی امور خارجہ کی کمیٹی کے علم میں لائے جائیں۔
دوسری طرف ایک اور امریکی سینیٹر مارکو روبیو نے بھی اس اقدام کو معمول کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیسے توانائی کی وزارت، وزارت خارجہ کی جگہ سعودی عرب کے ساتھ ایٹمی مذاکرات انجام دے سکتی ہے۔ قبل ازیں سینیٹر روبیو اور سینیٹر مینڈیز نے اپنے ایک الگ بیانیہ میں کہا تھا کہ حکومت کا کانگریس کے ساتھ مشورہ نہ کرنا انہیں پریشان کر رہا ہے۔
یاد رہے امریکی صدر ٹرمپ کی حکومت نے عرصہ دراز سے ریاض کے ساتھ "123 معاہدات” نامی ایٹمی مذاکرات شروع کر رکھے تھے جبکہ گزشتہ سال اکتوبر میں سینیٹر روبیو اور دوسرے ڈیموکریٹ سینیٹرز نے صدر ٹرمپ کو دھمکی دی تھی کہ اگر حکومت نے کانگریس کی منظوری کے بغیر یہ مذاکرات جاری رکھے تو وہ ان کو ممنوع قرار دے دیں گے۔ سینیٹر روبیو قبل ازیں سعودی عرب کی طرف سے کی جانے والی یورینیم کی انرچمنٹ اور پلوٹونیم کی پراسیسنگ کی کوششوں کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے سعودی عرب کو آمریت، انسانی حقوق کی زبوں حالی اور دوسرے ممالک پر کھلی جارحیت کے باوجود ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی کوشش کو دیگر ممالک کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں پر امریکی پابندیوں کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ ایسے میں امریکہ کے اختیار کردہ دوہرے معیارات کھل کر سامنے آ چکے ہیں کیونکہ ایک طرف تو وہ اسلامی جمہوری ملک ایران کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں پر بھی پابندیاں لگاتا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف سعودی عرب جیسے غیر جمہوری، جارح اور سفارت خانوں میں مخالف صحافیوں کے حکومتی قتل کے مرتکب ممالک کو بھی اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگانے کو تیار ہے۔