برکس کی اینٹیں ایک ایک کرکے گر رہی ہیں
یہ کانفرنس ایک ایسے وقت پر ہورہی ہے جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشدیگی میں اضافہ ہورہا ہے۔
انڈیا میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ چین کا جھکاؤ پاکستان کی جانب ہے اس لیے انڈیا میں بعض سخت گیر لوگوں نے سوشل میڈیا پر چینی اشیا کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلا رکھی ہے۔ حالانکہ اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑنے والا ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا اس موقع پر انڈیا چین سے پاکستان کی حمایت نہ کرنے کے لیے کچھ کہے گا یا اسے قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ بھارت میں ایوان صنعت و تجارت کے جنرل سیکریٹری دیدار سنگھ کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں بھی ‘بین الاقوامی سلامتی پر تو بات ہوگی لیکن برگز کوئی دوطرفہ فورم بھی نہیں ہے۔’
انڈیا نے بھی اب تک کوئی ایسا اشارہ نہیں دیا ہے کہ وہ چین یا گروپ کے کسی دوسرے رکن کے ساتھ پاکستان کے معاملے کو اٹھائے گا۔ اس سلسلے میں جو سرکاری سطح پر بات کہی گئی ہے اس میں رکن ممالک میں عوامی سطح پر، خاص طور پر نوجوانوں ميں، رابطے بڑھانے کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے مطابق مختلف اداروں کی تعمیر اور پہلے کیے جانے والے معاہدوں پر عمل کیسے کیا جائے جیسے مسائل اس کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔
برکس کے قیام کو آٹھ برس ہوچکے ہیں لیکن جن مقاصد کے لیے اسے تشکیل کیا گیا تھا وہ اب بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ سوال اب یہ اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہ صحیح سمت میں جارہی ہے یا نہیں۔ بعض تجزیہ نگار تو یہاں تک کہتے ہیں کہ برکس (اینٹ) کی اینٹیں اب ایک ایک کرکے گر رہی ہیں۔
بعض ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ رکن ممالک، جیسے چین اور بھارت، میں کئی مسائل پر اختلافات اور تضادات اس کی ترقی راہ میں خود ہی حائل ہوتے ہیں۔ برکس کے ایوان سے صنعت و تجارت کے سربراہ مدھوکر کہتے ہیں کہ برگز ایک متنوع گروپ ہے۔
ان کے مطابق ’اس طرح کے متنوع گروپ میں اتنی جلدی کچھ نہیں ہوگا۔ انھیں ملتے رہنا چاہیے، نتائج تو پہلے ہی سے مثبت رہے ہیں۔ پچھلی بار اسی کانفرنس کے موقع پر چین اور بھارت کے درمیان ملاقات ہوئی تھی اور اس کے اثرات مرتب ہوئے۔’
برکس کی پچھلی میٹنگ روس کے شہر اوفا میں ہوئی تھی تب سے رکن ممالک جنوبی افریقہ اور برازیل میں سیاسی ہلچل بھی رہی ہے۔
برکس کے وجود میں آنے کی وجہ رکن ممالک کی ابھرتی معیشت اور ان کی اقتصادی طاقت تھی۔ لیکن اس کے تین رکن اس وقت سخت اقتصادی مندی کے بوجھ تلے ہیں۔ برازیل اور روس میں تو معاشی ترقی کی منفی شرح کا امکان ہے اور چین کی معیشت بھی اس وقت بحران کا شکار ہے۔ اس گروپ میں اس وقت انڈیا کی معیشت ہی 5۔7 کی شرح سے ترقی کر رہی ہے۔
لیکن دیدار سنگھ اس تشویش کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ’اتار چڑھاؤ اب بین الاقوامی معیشت کی خاصیت بن چکے ہیں۔’ اور اس حیثیت سے برکس ایک عالمی طاقت ہے۔ شنگھائی میں اس کا ایک خود کا ترقیاتی بینک بھی قائم ہوچکا ہے۔ اور اس بار انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں برگز کے رکن ممالک کا ایک تجارتی میلہ بھی ہونے والا ہے۔
برکس بینک کے قیام کا مقصد کمزور معیشتوں کی مدد کرنا ہے۔ اس گروپ کے رکن ممالک کی معیشتیں دنیا کی ابھرتی اقتصادیات میں سے ایک ہیں۔ بینک کے قیام کا ایک مقصد عالمی بینک اور عالمی مالیاتی ادارے جیسے اداروں پر انحصار کو کم کرنا تھا جن پر مغربی ممالک کا غلبہ رہتا ہے۔ اس لیے بینک کے قیام کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
دنیا کی 44 فیصد آبادی برکس ممالک میں بستی ہے۔ دنیا کی 30 فیصد جی ڈی پی انھیں ممالک سے آتی ہے اورعالمی سطح پر تجارت میں ان کا تقریباً 18 فیصد حصہ ہے۔