دنیا

دولتِ اسلامیہ شہریوں کو بطور انسانی ڈھال استعمال کر رہی ہے

شمالی عراق کے اس شہر میں سات لاکھ لوگ بستے ہیں اور یہاں دولتِ اسلامیہ کے پانچ ہزار کے قریب جنگجو ہیں۔

پینٹاگون کے ترجمان کیپٹن جیف ڈیوس نے منگل کے روز واشنگٹن میں ایک نامہ نگار کے اس سوال پر کہ آیا دولتِ اسلامیہ شہریوں کو بطور انسانی ڈھال استعمال کر رہی ہے، کہا: ‘بالکل، انھیں کی مرضی کے بغیر رکھا گیا ہے۔ ہم نے کسی کو وہاں سے نکلتے یا بھاگتے ہوئے نہیں دیکھا۔’

انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے بھی منگل کے روز خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ‘آنے والے دنوں میں جنگجو عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ ’وہ ان کے درمیان چھپ سکتے ہیں، شہر سے فرار ہو سکتے ہیں یا پھر ان کو شہر چھوڑنے سے روک سکتے ہیں۔’

اقوامِ متحدہ موصل کے قریب پناہ گزینوں کے لیے کیمپ تیار کر رہی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی رابطہ کار برائے عراق لیزا گرینڈ نے کہا کہ ان کا ادارہ اس بنیاد پر کام کر رہا ہے کہ جنگی کارروائی کے آغاز کے بعد دو لاکھ لوگوں کو مدد کی ضرورت پڑے گی۔

عراقی اور کردی فوجیں شہر سے ابھی 30 اور 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔

انھوں مشرق کی طرف سے قراقوش شہر کا محاصرہ کر رکھا ہے، تاہم وہاں اب بھی دولتِ اسلامیہ کے جنگجو مزاحمت کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں جنگجوؤں کو عراقی فوج پر فائر کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس سے قبل کہا گیا تھا کہ اس قصبے کو آزاد کروا لیا گیا ہے جس کے بعد سے وہاں سے نکلنے والے عیسائیوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا جو اب اربیل میں رہتے ہیں۔

جنگ سے قبل قراقوش میں عراقی عیسائیوں کی سب سے بڑی تعداد مقیم تھی۔ یہ شہر موصل سے 32 کلومیٹر دور ہے۔

توقع ہے کہ بدھ کو اتحادی فوج حملہ دبارہ شروع کرے گی۔ اس میں 34 ہزار کے قریب عراقی فوجی، کرد جنگجو، سنی اور شیعہ مسلمان اور عرب قبائلی حصہ لے رہے ہیں۔

تیل کی دولت سے مالامال نینوا صوبے کا صدر مقام موصل عراق کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس پر جون 2014 میں دولتِ اسلامیہ نے قبضہ کر لیا تھا۔

اس سے دولتِ اسلامیہ نے یہ پیغام دیا تھا کہ وہ بڑے پیمانے پر علاقوں پر قبضہ برقرار رکھ سکتے ہیں۔

یورپی یونین کے سکیورٹی کمشنر نے خبردار کیا ہے کہ موصل کو دولتِ اسلامیہ کے قبضے سے چھڑوانے کی صورت میں یورپی یونین کو جہادیوں کی بڑی تعداد میں یورپ آمد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

جولین کنگ نے ایک جرمن اخبار کو بتایا کہ شدت پسندوں کی ایک قلیل تعداد بھی ایک خطرہ ثابت ہو سکتی ہے اور ہمیں اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

گذشتہ نومبر میں پیرس پر دہشت گردانہ حملے میں ملوث بعض جنگجو شام سے فرانس پہنچے تھے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close