عالمی طاقتیں شام میں ’جنگی کارروائیاں روکنے‘ پر متفق
شام کی مدد کے لیے بین الااقوامی وزرا نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ شام میں امدادی اشیا کی رسد بڑھائی جائیں۔
یہ اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب شام کی افواج نے روس کی فضائی کارروائیوں کی مدد سے حلب میں پیش قدمی کی ہے۔
اس اقدام سے باغیوں کے زیر قبضہ حلب شہر میں محصور ہزاروں شامیوں کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
امریکی سکریٹری خارجہ جان کیری نے یہ اعلان اپنے روسی ہم منصب سرگئے لاوروف اور شام کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی سٹافن ڈی مسٹورا کے ہمراہ یہ اعلان کیا۔
امریکہ کے سیکرٹری خارجہ جان کیری نے تسلیم کیا کہ جنگ بندی کا منصوبہ کافی حوصلہ افزا تھا لیکن اصل امتحان یہ ہوگا کہ شام میں موجود فریق اس کا احترام اور اس پر عمل در آمد کریں۔
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس ابھی الفاظ محض کاعذوں پر ہیں۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ زمین پر کیا ہو گا
امریکہ اور روس نے ایک ٹاسک فورس بنائی ہے جو شام میں برسرے پیکار گروہوں سے مشاورت کر کے میونخ میں ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کا جائزہ لیں گے۔
شام کے محصور علاقوں میں امدادی اشیا کی فراہمی بھی جمعے سے شروع ہو جائے گی۔
سرگئے لاوورف کا کہنا تھا کہ ’ہم کافی پر امید ہیں کہ ہم نے آج ایک اچھا کام کیا ہے۔‘
اس سے پہلے امریکہ کی طرف سے شام میں جاری خانہ جنگی کو فوری طور پر روکنے کی کوششوں کو روس کی شدید مخالفت کا سامنا رہا۔
پریس کانفرنس کے دوران مسٹر کیری نے کہا کہ روس شام میں فضائی حملوں میں جنھیں نشانہ اپنا رہا، مغربی ممالک کے خیال میں وہ دہشت گردوں کے بجائے متعدل حزبِ اختلاف ہے۔
شام کے بحران سے متعلق امن مذاکرات کو بحال کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کا اجلاس میونخ میں ہوا۔
یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب امدادی اداروں نے خطے میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔
عالمی امدادی ایجنسی انٹرنیشنل کمیٹی آف دا ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کا کہنا ہے کہ شام کے صوبے حلب میں جاری لڑائی میں حالیہ دنوں میں آنے والی شدت کے باعث 50 ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ امداد پہنچانے کےراستے بھی بند کروا دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے شہریوں پر ’شدید دباؤ‘ ہے۔