دنیا

شام میں ایک سکول پر ہونے والے فضائی حملے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حملے میں باغیوں کے زیرِ قبضہ قصبے ادلب کے قریب ایک سکول کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

یونیسیف کے مطابق 11 اکتوبر کے بعد سے ادلب سمیت پانچ سکولوں کو ‘غیرانسانی’ حملوں کا ہدف بنایا گیا ہے۔

شام میں طبی عملے اور ایک برطانوی مبصر گروپ نے جمعرات کے روز کہا کہ ادلب کے حملے میں ہلاک شدگان کی تعداد 35 تک پہنچ گئی ہے جن کی اکثریت بچوں پر مشتمل ہے۔

بظاہر الب سے 75 کلومیٹر جنوب مغرب میں حاص نامی گاؤں پر اس وقت بم گرنا شروع ہو گئے جب بچے فضائی حملوں کے پیشِ نظر قبل از وقت گھروں کو جانے کی تیاری کر رہے تھے۔

روس نے تردید کی ہے کہ یہ حملہ اس نے یا پھر اس کے شامی اتحادیوں نے کیا ہے۔

روسی وزارتِ دفاع کے ترجمان میجر جنرل ایگور کونس شینکوف نے کہا کہ سکول پر حملے کا دعویٰ من گھڑت ہے اور ایک روسی ڈرون سے جمعرات کو لی جانے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکول کی چھت اب بھی سلامت ہے۔

تاہم برطانوی میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ‘روسی یا شامی جنگی جہازوں’ نے اس گاؤں پر چھ حملے کیے۔

کارکنوں نے ایک عارضی ہسپتال کے فرش پر پڑی ہوئی لاشوں کی تصاویر شیئر کی ہیں جن کی اکثریت بچوں پر مشتمل ہے۔

بان کی مون نے کہا: ‘اگر عالمی غم و غصے کے باوجود ایسے حملے جاری ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حملہ آوروں کو، چاہے وہ اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہوں یا باغیوں کے ٹھکانوں میں، انصاف کا کوئی خوف نہیں ہے۔ انھیں لازماً غلط ثابت کرنا ہو گا۔’

یونیسیف کے سربراہ نے کہا کہ اگر حملہ جان بوجھ کر کیا گیا ہے تو یہ جنگی جرم ہے۔

انھوں نے کہا: ‘یہ حالیہ بربریت پانچ سال قبل جنگ شروع ہونے کے بعد سے سب سے مہلک حملہ ہو سکتا ہے۔

‘خاندانوں سے بچے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے ہیں، استادوں نے اپنے شاگرد ہمیشہ کے لیے کھو دیے ہیں۔ شام کے مستقبل پر ایک اور داغ۔ اس بربریت پر دنیا کا احساسِ تنفر کب اس اصرار کے مساوی ہو گا کہ ایسے حملے ہر صورت ختم ہونے چاہییں

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close