نیٹو روس کے ساتھ نہ تو ٹکراؤ چاہتا ہے اور نہ ہی نئی سرد جنگ
ان کا کہنا تھا کہ مشرقی یورپ کے علاقے میں اضافی 4000 فوجیوں کی تعیناتی کا مقصد احتیاط برتنا ہے اشتعال دلانا نہیں۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ کشیدگی کے باوجود نیٹو کا فوجی اتحاد روس کو خطرے کے طور پر نہیں دیکھتا۔
سرد جنگ کے اختتام کے بعد روس اور مغربی طاقتوں کے درمیان آج کل تعلقات کافی خراب ہیں۔
2014 میں یوکرین کے جزیرے کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کے بعد یورپی یونین اور امریکہ نے روس پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
شام کی جنگ کے حوالے سے بھی مغربی طاقتوں اور روس کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔ کئی مغربی ممالک نے شام کے بعض شہرووں، خاص طور پر اسد کے مخالف گروپوں کے زیر قبضے علاقوں، پر روسی بمباری کو جنگی جرائم سے تعبیر کیا ہے اور اس کی وجہ سے بھی کشیدگی کا ماحول ہے۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپ میں روس کی طرف سے جارحانہ فوجی ڈیزائن کا نظریہ ‘مضحکہ خیز’ ہے۔
کثیر ملکی فوجیوں پر مشتمل ایک ہزار فوجیوں کی چار بٹالین تشکیل دی گئی ہیں جو آئندہ برس کے اوئل میں پولینڈ، اسٹونیا، لاتوئیا اور لتھوانیا میں تعینات کی جائیں گی۔ ان فوجی بٹالینز کی قیادت امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کریں گے۔
لیکن نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز سٹولٹینبرگ کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد روس کے ساتھ ٹکراؤ نہیں بلکہ ‘ اور زیادہ معاون اور تعمیری تعلقات استوار کرنے کی ایک کوشش ہے۔’ لیکن یہ ہمیں اجتماعی دفاع اور طاقت کے توازن کی بنیاد پر کرنا ہوگا۔’
انھوں نے کہا کہ نیٹو کو روس سے فوری طور پر تو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے لیکن یوکرین میں اس کے اقدامات کے مد نظر جوبا اور یورپی ممالک کے خلاف جوہری طاقت کے استعمال کی دھمکانے والے بیانات کے پیش نظر ایسا کر رہا ہے۔
نیٹو کا کہنا ہے کہ اسے یقین ہے کہ روس نے اپنی مغربی سرحد کے قریب تین لاکھ 30 ہزار فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔
اس سے قبل اسی ہفتے اس طرح کی تشویشات اور خدشات کے اظہار کے بعد کہ ممکن ہے کہ روسی جنگی جہاز شام میں شہریوں پر بمباری کے کے لیے استعمال ہو سپین کی بندرگاہ پر اسے رکنے منع دیا گیا تھا۔