توہین مذہب‘ پر گورنر کے خلاف ریلی
جکارتہ میں تشدد کے خدشات کے پیشِ نظر کم سےکم 20 ہزار سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے بسوکی پرناما پہلے چینی نسل شخص ہیں جو جکارتہ کے گورنر کا عہدہ سنھبالیں گے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ جکارتہ میں ہزاروں افراد اس احتجاج میں شرکت کریں گے جس سے مذہبی اور نسلی کشیدگی کو روکنے کے لیے پولیس ہائی الرٹ پر ہے
جکارتہ میں سنہ 1998 میں چین مخالف جذبات کی وجہ سے چین ملکیتی دکانوں اور گھروں کو جلا دیا گیا تھا۔
جکارتہ پولیس کے چیف انسپیکٹر جنرل موجمد اریاون نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘حجاب میں ملبوس پولیس خواتین کو بھی احتجاج کے موقع پر تعینات کیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا ہمارے پاس مرد پولیس افسران بھی ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو (کشیدگی کو کم کرنے کے لیے) انھیں بھی بھیجا جائے گا۔
عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے بسوکی پرناما جو ‘آہوک’ کے نام سے بھی مشہور ہیں آئندہ برس فروری میں دوسری بار گورنر کے عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ تاہم کچھ اسلامی گروہوں نے پہلے ہی قرآن کی آیت کا حوالے دیتے ہوئے لوگوں کو انھیں ووٹ نہ دینے کی اپیل کی ہے۔
کچھ افراد کی جانب سے اس آیت کی یہ تشریح کی کئی کہ مسلمانوں کو غیرمسلم حکمران کے زیرقیادت رہنے کی ممانعت ہے جب کہ دیگر کا کہنا تھا کہ اس آیت کا سیاق و سباق جنگ کا زمانہ ہے اور اس کی تشریح لغوی معنوں میں نہیں کرنی چاہیے۔
بسوکی پرناما نے 28 ستمبر کو ایک متنازع بیان میں کہا تھا کہ مسلمان ایک قرآنی آیت کا استعمال کر کے انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
انھوں نے بعد میں اپنے اس بیان پر معذرت کر لی تھی اور اب پولیس اس حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے۔
بسوکی پرناما سنہ 2014 میں جوکو ویڈوڈو کے نائب گورنر تھے۔ جب جوکو ویڈوڈو کو اسلامک ڈیفینڈرز فرنٹ (ایف پی آئی) کی مدد سے انڈونیشیا کا صدر منتخت کیا گیا تو وہ نہیں چاہتے تھے کہ بسوکی ویڈوڈو کی جگہ لیں۔
ایف پی آئی کا کہنا ہے کہ کسی عیسائی کو مسلم اکثریتی شہر پر حکومت نہیں کرنی چاہیے۔