طالبہ کو زندہ جلانے کے جرم میں 16 افراد کو سزائے موت
بنگلا دیش کی عدالت نے ایک مدرسے کی طالبہ کو زندہ جلا کر قتل کرنے کے الزام میں 16 افراد کو سزائے موت سنادی۔
سزا پانے والوں میں حکمران جماعت کے دو کارکن ، دو ساتھی طالبہ، مدرسے کا پرنسل اور طالب علم شامل ہیں۔
رواں سال مارچ میں بنگلادیش کے شمال مشرقی شہر فینی میں 19 سالہ طالبہ نصرت جہاں رفیع نے اپنے پرنسپل پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا۔
طالبہ کی جانب سے ہراسانی کی شکایت پر پولیس نے پرنسپل سراج الدولہ کو حراست میں لے لیا اور اس کے خلاف تحقیقات کی جارہی تھیں تاہم شکایت درج کرانے کے بعد سے نصرت کو دھمکیاں دی جارہی تھیں کہ وہ اپنی درخواست واپس لے لے۔
پولیس کے مطابق 10 اپریل کو نصرت جہاں کو بہانے سے مدرسے کی چھت پر بلایا گیا جہاں ملزمان نے اس پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی، ملزمان اپنی اس مذموم حرکت کو خودکشی کا رنگ دینا چاہتے تھے تاہم نصرت وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئی۔
نصرت کا 80 فیصد جسم جھلس چکا تھا اور وہ 5 دن بعد اسپتال میں دم توڑ گئی تاہم ایمبولنس میں نصرت نے اپنے ویڈیو بیان میں پرنسپل پر الزام دہراتے ہوئے اسے جلانے میں ملوث چند ملزمان کی نشاندہی بھی کی تھی۔
اپنے بیان میں نصرت کا کہنا تھا کہ وہ آخری سانس تک جرم کیخلاف لڑے گی۔
19 سالہ طالبہ کی موت کے بعد بنگلا دیش میں شدید احتجاج کیا گیا، مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت جلد ازجلد واقعے میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائے۔
سزائے موت پانے والوں میں پرنسپل سراج الدولہ بھی شامل ہےجس پر الزام ہے کہ اس نے جیل سے نصرت کے قتل کے احکامات جاری کیے جب کہ دیگر ملزمان میں بنگلا دیش میں برسراقتدار عوامی لیگ کے دو مقامی رہنما بھی شامل ہیں۔
مرکزی ملزم سراج الدولہ نے صحت جرم سے انکار کیا ہے جب کہ 12 ملزمان نے اپنا جرم قبول کرلیا ہے۔
عدالتی فیصلہ آنے کے بعد پراسیکیوٹر نے اس فیصلے کو عدلیہ کی تاریخ کا اہم سنگ میل قرار دیا ہے جب کہ نصرت کے گھر والوں نے بھی فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔