ٹرمپ کی جیت سے سلیکون ویلی میں مایوسی کی لہر
ایسا لگتا ہے کہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر کیلیفورنیا کی سلیکون ویلی کے بعض اشرافیہ کا یہ غیر متوقع جھٹکے کا فوری رد عمل ہوسکتا ہے۔
ایک اور سرمایہ کار شروین پیشیور، جنھوں نے اوبر، ایئر بی این بی اور سلیک جیسی بڑی کمپنیوں میں زبردست سرمایہ کاری کر رکھی ہے، نے لکھا ہے: ‘میں کیلیفورنیا کے ایک خود مختار ریاست ہونے اور اس کے لیے فنڈز مہیا کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔’
اس کے جواب میں ٹیکنالوجی کے سیکٹر میں ایک اور بڑے سرمایہ کار ڈیو مورن نے لکھا: ‘میں بھی آپ کے ساتھ ہوں اور اس میں آپ کے ساتھ شریک ہوں گا۔’
اس بحث میں اس بات پر اتفاق بھی ہوگیا کہ جس نئی خود مختار ریاست کا وعدہ کیا جارہا ہے اس کا نام نیو کیلیفورنیا ہوگا۔
پیشیور نے کہا کہ ‘یہ سب سے بڑی حب الوطنی ہے جس کا ہم مظاہرہ کر سکتے ہیں۔’
ممکن ہے کہ مذکورہ تجویز بڑی مضحکہ خیز ہو لیکن یہ صدارتی انتخابات کے بعد سلیکون ویلی میں پائے جانے
والی ہیبت اور گھبراہٹ کا مظہر ہے جو نتائج سے حیرت میں ہے اور اسے جواب نہیں مل پا رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے لیے معروف سلیکون ویلی کی اس دنیا کے دو اہم پہلو ہیں: ایک تو پیسہ اور دوسرے دنیا کے متعلق اس کے اپنے خیالات۔
ہلیری کلنٹن کو تمام دیگر ریاستوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ووٹ کیلیفورنیا میں ملے ہیں۔ یہاں تو ٹرمپ کی جیت کے امکانات تو کیا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
اس علاقے میں ووٹ پڑنے سے پہلے ٹرمپ کی کھلی حمایت جرم کی طرح دیکھی جاتی تھی اور اگر کسی نے ایسی جرات کی تو اس کی جاب تک جا سکتی تھی۔
جب یہ بات سامنے آئی کہ فیس بک کے ایک صارف اور بڑے سرمایہ کار پیٹر تھیئل نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے 10 لاکھ ڈالر دینے کا فیصلہ کیا ہے تو بہت سے لوگوں نے انھیں برخاست کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
لیکن چند ہفتوں کے بعد ہی پیٹر سلیکون ویلی میں سب سے ہوشیار اور عقل مند شخص بن کر ابھرے۔
انھوں نے ٹرمپ کی جیت کے بعد ایک بیان میں کہا: ‘چونکہ ماضی میں ہم نے کافی دنوں سے اپنے ملک کے مسائل کا سامنا ہی نہیں کیا اس لیے ان کے پاس بہت مشکل کام ہے۔ ہمیں اس میں سب کے ساتھ کی ضروت پڑے گی۔‘
لیکن پیٹر اب بھی یہاں باہر کی ہی شخصیت ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہی دیکھنا باقی ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کا مطلب سلیکون ویلی کے لیے کیا ہوگا۔
ٹوئٹر کمپنی کے بڑے سرمایہ کار کرس ساکا کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ٹرمپ کی قیادت کے حوالے سے کھلے ذہن سے سوچنا چاہیے۔
’ہم ٹیکنالوجی برادری ان افراد کی مدد کے لیے، جنھیں سب سے زیادہ ضرورت ہے، نو منتخب صدر ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دروازہ کھلا ہوا ہے۔’
ابھی اس سلسلے میں بڑی کمپنیاں جیسے ایپل، گوگل اور فیس بک وغیرہ کا رد عمل سامنے نہیں آیا ہے کہ آخر وہ ان نتائج کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔